حسن وجمال کا استعارہ ، شہزادی در شہوار ارطغرل غازی کی کیا لگتی تھیں

باغی ٹی وی : شہزادی در شہوار خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ ارطغرل غازی کی انیسویں نسل عبدلمجید دوم کی بیٹی تھی اور وہ انتہائی حسین اور وجیہ خاتون تھیں . وہ جس وقت پیدا ہوئیں اس وقت سلطنت عثمانیہ اپنے آخری ایام گن رہی تھی۔ 1924ء میں خلافت کے خاتمے کے بعد ان کے والد عبد المجید ثانی کو ملک بدر کر دیا گیا اور وہ جنوبی فرانس میں رہنے لگے۔

12 نومبر 1931ء کو نیس، فرانس میں ان کی شادی آخری نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان کے بڑے صاحبزادے اعظم جاہ سے ہوئی۔

1933ء میں ان کے بطن سے مکرم جاہ اور 1936ء میں مفحم جاہ پیدا ہوئے۔ دونوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور ترک خواتین سے ہی شادیاں کیں۔

روایتی طور پر پردہ کرنے کی بجائے وہ خاص تقاریب میں شریک ہوا کرتی تھیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف سرگرمیاں انجام دیتی تھیں۔ انہوں نے حیدرآباد شہر میں ایک شفا خانہ بھی قائم کروایا جو آج بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔


وہ آخری بار نظامی عجائب گھر کے 25 سال مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب کی صدارت کے موقع پر منظر عام پر آئیں۔

اٹھارویں صدی کے اواخر سے اس سلطنت کا زوال شروع ہوا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد سال 1922 میں اس عظیم الشان سلطنت کا
بالآخر خاتمہ ہوگیا ۔ مصطفی کمال کی زیر قیادت ترکی کی نئی انتظامیہ نے شاہی خاندان کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا ۔ نومبر 1922 میں سلطنت عثمانیہ کے آخری بادشاہ سلطان وحید الدین محمد چہارم نے ان کے خاندان کے افراد کے ساتھ استنبول میں اپنے شاہی محل سے تخلیہ کرتے ہوئے فرانس کے پایہ تخت فرانس میں پناہ لی ۔

حالانکہ اس کے بعد کچھ وقفہ تک سلطان محمد کے چچا زاد بھائی عبد المجید الثانی کو برائے نام بطور خلیفہ متعین کیا گیا ، لیکن تین مارچ 1924 کو سرکاری طور پر خلافت کے مکمل خاتمہ کا اعلان کردیا گیا ۔سلطان عبد المجید الثانی کی دختر شہزادی در شہوار کی شادی حیدرآباد دکن کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے بڑے فرزند نواب میر حمایت علی خان اعظم جاہ بہادر سے فرانس کے شہر نیس میں 12 نومبر 1931 کو انجام پائی۔1933ء میں ان کے بطن سے مکرم جاہ اور 1936ء میں مفحم جاہ پیدا ہوئے۔

دونوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور ترک خواتین سے ہی شادیاں کیں۔روایتی طور پر پردہ کرنے کی بجائے وہ خاص تقاریب میں شریک ہوا کرتی تھیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف سرگرمیاں انجام دیتی تھیں۔ انہوں نے حیدرآباد شہر میں ایک شفا خانہ بھی قائم کروایا جو آج بھی انہی کے نام سے موسوم ہے۔وہ آخری بار نظامی عجائب گھر کے 25 سال مکمل ہونے پر منعقدہ تقریب کی صدارت کے موقع پر منظر عام پر آئیں۔7 فروری، 2006ء کو وہ لندن میں انتقال کر گئیں۔

Shares: