یہاں مراد وہ حق ہے جیس کو نقصان پہنچنے سے تمام افراد معاشرہ کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے اور جیس کے محفوظ رہنے سے تمام حقوق کے محفوظ رہنے کا راستہ نکلتا ہے ۔ یہ حق ملت اسلامیہ کی سر براہی کا حق حکمرانی کا قیادت کی legitimacy کا پرابلم ہے ۔ حکمرانی اور قیادت کے پرابلم پر امت مسلمہ آج سے چودہ سو سال پہلے جیس انتشار کا شکار ہوئی اس کو آج تک سمیٹ نہیں سکی ۔ امام حسین کے بعد ملوكيت، بادشاہت اور بعد ازآں غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوۓ حلانکہ امام حسین کی قربانیوں کا مقصد امت کی اصلاح اور انسانوں کے حقوق کی حفاظت تھا۔
امام امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور اپنے اپنے اباؤ اجداد کی پیروی ہے۔”
جیسا کہ crisis of legitimacy کا مسلہ ابھی بھی پاکستان کے علاوہ کافی مسلم ممالک میں پایا جاتا ہے یعنی عوام کے مرضی کے بنا کسی بھی بہانے یا حربے سے اقتدار پہ قبضہ کرنا اور اسی بحران کا سامنا امام حسین کو بھی کرنا پڑاتھا ۔
شہادت حسين اثبات حق اور باطل کی داستان ہے اور یہ سادہ و رنگین داستان صرف اہل اسلام کی نہیں پوری انسانیت کی جنگ بن چکی ہے اور حق و باطل کی کشمکش میں ایک بین الااقوامی علامت بن چکی ہے۔
اس علامت کو کہیں شاعری میں استعمال کیا گیا اور کہیں ڈرامہ اور دوسرے ثقافتی و تہذیبی مظاہروں میں ۔آپ نے عزاداروں کے محفلوں میں اور ماتم گساروں کے جلوسوں میں خطیبوں کے وعظوں اور شاعروں کے مرثیوں میں اس علامت کو بڑے موثر طور پر استعمال ہوتے دیکھا اور سنا ہوگا۔
امام حسین کا نام ہر مسلمان کے لئے قابل احترام ہے لیکن طاقت اور جبر کے اشتراک واتحاد کی بنیاد پر حکومت کرنے والے مسلمان ہونے کے باوجود حسینی شعور سے وابستہ علامتوں کو گوارہ نہیں کر سکتے اور تاریخ شاہد ہے کہ حسینی شعور یعنی انقلابی شعور بیدار ہو جائے تو پھر اسے اپنی جنگ خود لڑنی پڑتی ہے ۔ کسی سہارے یا سہارے کے وعدے کے بغیر۔ حسینی شعور کسی مادی وسيلے یا اعانت کا منتظر نہیں رہتا۔ وہ خود ہی بھڑکتا اور ارد گرد کے سارے ماحول کو اپنی روشنی اور تپش سے زندگی اور حرارت بخشتا ہے۔ وہ اپنی بشارت آپ ہے اور یقین کیجے پاکستان کے مسلمانوں کی رگ وپے میں خون کی طرح گردش کرنے والے حسینی شعور کو اب ہمہ وقت بیدار اور نگران رہنے کی ضرورت ہے۔
بے خبری میں ان کے حقوق پر کئی شب خون مارے جا چکے ہیں اور مزید کا بھی خطرہ ہے استعماری طاقتوں کے گدھ ہمارے منڈیروں پر بیٹھے اپنے پر پھڑپھڑاتے رہتے ہیں ۔ امام حسین حرمت ضمیر کے محافظ اور انسانی حقوق کے چمپین تھا اور یہ چمپین انسانیت کی جنگ لڑتے لڑتے شہید ضمیر ہو کر امر ہو گئے۔
یزید دولت شہرت اور ٹھاٹھ باٹھ کا خواہش مند تھا اور اپنی اس خواہش تکمیل کے لئے اسے ظالموں کی ہوائے نفسانی کے بند مزاروں میں محبوس ہو جانا پڑا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا میں شہید ہوئے جب وہ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ تھا جس نے ایک لازوال اثر چھوڑا۔
شہادت حسین تو انسان کو یہ سیکھاتی ہے کہ ماضی کے گہوارے، حال کے دائرے اور وقت کے جالے کو توڑ کر نئی منزلوں اور نئے جہانوں کی طرف کیونکر بڑھا جاسکتا ہے ۔ آج امام حسین واقعتا” وقت کے پیمانوں یعنی ماضی وحال کے تمام جال توڑ کر دائمی اور لازوال عظمتوں سے ہمکنار ہو چکا ہے اور ہر عہد کے اجتمائی ضمیر اور شعور کا امین اور رفیق بن چکا ہے۔
امام حسین خون میں دوڑنے والی ایک غیرت ہے۔ ایک ادارہ ہے۔ امام حسین جانتے تھے کہ مجھے شہید ہونا ہے۔ امام اس لئے گئے تاکہ حق کا علم بلند ہو۔ حسینؓ وہ مینار ہے جو اتنی بلندی پر قائم ہے کہ قیامت تک امت کے لئے روشنی دیتا رہے گا۔ حق و باطل کی جنگ ہمیشہ جاری رہی ہے اور آج بھی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ غدار ہر جگہ ہیں، شام اور کوفہ ہر جگہ ہیں۔
حضرت امام حسینؓ نے کربلا کے میدان میں حق و صداقت کی جہاں ایک تاریخ رقم کی وہاں انہوں نے اسلام کی بقا کی ضمانت بھی اپنے لہو سے دی۔ ہم نے جس نظریے کے تحت پاکستان بنایا ، اس نظریے کو زندہ کرنا ہے اور نوجوان نسل کو اس نظریے سے اچھی طرح آگاہ کرنا ہے اور اس کی اصلیت کا یقین دلانا بھی ہماری ذمداری ہے اگر اسا کرتے ہیں تو تو یقیناً ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان اشعار پر بات ختم کرتا ہوں
دیتی رہے گی درس شہادت حسینؓ کی ۔۔۔ آزادیِ حیات کا یہ سرمدی اصول
کٹ جائے چڑھ کے سر ترا نیزے کی نوک پر ۔۔۔ لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
امام حسین کی شہادت تاقیامت تک یاد رکھاجائے گا اور بحثیت مسلمان ہماری کمیابی کی ضمانت بھی فلسفہ حسینیت میں ہمارے اندر حسینی شعور کا ہونا بہت ضروری ہے پھر ہم عدل وانصاف حق وہ باطل کو پرکھنے کے قابل ہو جائینگے۔
امام کو پتا تھا اسے شہید کر دیا جائے گا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے کیوں کہ عدل وانصاف اور اسلام کی سر بلندی بہت ضروری تھی تبھی امام حسین نے اپنی جان کی پروا نہیں کیا اور اتنی بڑی قربانی دے دی جو قیامت تک یاد رکھا جاے گا۔
آسان نہیں ہے معرفت راز کربلا
دل حق شناس دیدہ بیدار چائے
@I_MJawed