میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پبلک کی گئی عزیربلوچ کی جے آئی ٹی میں ردوبدل کیا گیا ہے، نبیل گبول کا انکشاف

0
37

کراچی : میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پبلک کی گئی عزیربلوچ کی جے آئی ٹی میں ردوبدل کیا گیا ہے، نبیل گبول کا انکشاف،اطلاعات کے مطابق پیپل پارٹی سندھ کے رہنما نبیل گبول نے پبلک کی گئی عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں رد و بدل کا دعویٰ کر دیا، ان کا کہنا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس جے آئی ٹی میں شامل نہیں ہیں۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز عزیربلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آگئی جس کے بعد پی پی رہنما نبیل گبول کا بڑا بیان سامنے آگیا۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی تھیں جو اس جے آئی ٹی میں شامل نہیں ہیں، یہ تو وہی جے آئی ٹی ہے جو سوشل میڈیا پر کافی عرصے سے گھوم رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق نجی ٹی وی کے پروگرام الیوتھ آور میں میزبان وسیم بادامی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے نبیل گبول نے کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے، رپورٹ مجھے ایڈیٹ کی ہوئی نظر آ رہی ہے۔

پی پی رہنما نے کہا کہ میں اہم اداروں کے لوگوں سے بھی سوال کرتا ہوں کہ وہ ایسی جے آئی ٹی پر کیسے دستخط کرسکتے ہیں؟ جس میں بہت چیزیں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں بہت سی باتوں کا تذکرہ نہیں ہے جیسا کہ لوگوں کو کس طرح قتل کیا جاتا تھا، لوگوں کے اغوا اور قتل کے معاملات سے رحمان ملک اچھی طرح واقف ہیں۔

جے آئی ٹی میں آصف زرداری کے نام سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عذیر بلوچ کے زرداری سے ملاقات کے بیان میں مجھے سچائی نظر نہیں آتی کیونکہ آصف زرداری اس وقت کے صدر پاکستان تھے ۔

نبیل گبول کا اپنی گفتگو میں مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں اس بات کا بھی ذکر نہیں کہ ذوالفقارمرزا نے عزیر بلوچ کو قتل کی وارداتوں کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ لیاری کو اسٹیٹ آف کرائم بنانے والے عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ پبلک کردی گئی، عذیر بلوچ کی چھتیس صفحات کی جے آئی ٹی رپورٹ میں پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی یا اعلیٰ قیادت سے تعلقات کا ذکر نہیں ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عذیر بلوچ کو حبیب جان بابا لاڈلہ اور استاد تاجو جیسے بیس دوستوں کا تعاون حاصل تھا، سال دو ہزار آٹھ میں عذیر بلوچ نے پیپلزامن کمیٹی کے نام سے علاقے میں بد امنی پھیلائی، لسانیت اور گینگ وار میں ایک سواٹھانوے افراد قتل کیے۔

عزیر بلوچ نے اثرو رسوخ کی بنیاد پرغنڈوں کو مدد دینے والے افسر لگوائے، اپنے مخالفین ارشد پپو ،یاسر عرفات اور شیرا پٹھان کو پولیس موبائل میں پولیس افسرں کے ذریعےاغوا کرایا اورشاہ جہاں بلوچ کی مدد سےقتل کیا، دو ماہ بعد شاہ جہاں بلوچ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ عذیر بلوچ ایرانی انٹیلی جنس سے رابطے میں تھا، عذیر بلوچ نے عسکری تنصیبات اور حکام سے متعلق خفیہ معلومات غیر ملکی ایجنٹس کو دیں۔

عزیربلوچ نے ایران سے پیدائشی سرٹیفکیٹ،شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوا رکھے تھے۔ ایران سے بوگس شناختی دستاویزات بنوانے میں عائشہ نامی خاتون نے اس کا ساتھ دیا۔

اس کے علاوہ جے آئی ٹی رپورٹ میں پاکستان اور دبئی میں غیرقانونی اثاثوں کا انکشاف بھی ہوا ہے عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ پر آئی ایس آئی، ایم آئی ،رینجرز سندھ سمیت تمام جے آئی ٹی ارکان کے دستخط موجود ہیں۔

Leave a reply