اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی بساط کو لپیٹنے کیلئے عمران خان نے ڈکٹیٹرز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جعلی وزیر اعظم کےخلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی اجلاس میں ایجنڈے پرتھی لیکن ایجنڈےکومکمل نظر اندازکرکےغیر متعلقہ خط کا سہارا لےکرعدم اعتماد کی تحریک کومسترد کرنےکی جو بھونڈی حرکت کی ہےاورملک سیاسی بحران کی طرف دھکیل دیاگیا،شاید تاریخ میں اس ذمہ دار منصب سےایسی حماقت سرزدہوئی ہو۔

فضل الرحمان نے کہا کہ ایجنڈے میں عدم اعتماد کی تحریک پر آپ ایک ایسے خط کو لا رہے ہیں جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں، انہوں نے یہ اقدام کرکے بھاگنے کی کوشش کی ہے۔

فضل الرحمان نے مزید کہا کہ 1988میں بلوچستان اسمبلی کو توڑا گیا تھا، اگلے ہی دن ہم ہائیکورٹ گئے تھے ،عدالت نے اسمبلی بحال کردی تھی۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی آئین کے خلاف ہوئی ہے، ڈپٹی اسپیکر ایسی رولنگ دینے کے مجاز نہیں تھے، کیا یہ تھا وہ سرپرائز جو وہ قوم کو دینا چاہتے تھے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو آئے بھی ناجائز طریقے سے تھے اور گئے بھی ناجائز طریقے سے ہیں، اب یہ ہارے ہوئے اور ہار سے بھاگے ہوئے لوگ ہیں۔

تحریک عدم اعتماد متاثر نہیں ہورہی ، ڈپٹی سپیکر جو رولنگ دی اس میں سپیکر قومی اسمبلی کا حوالہ دیا گیا جبکہ خود اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آچُکی تھی ۔ڈپٹی سپیکر اس رولنگ کے مجاز نہیں تھے ۔

فضل الرحمن نے مزیدکہا کہ کیا قوم ان لوگوں کے ان تماشوں کو دیکھتی رہے گی ۔جے یو آئی نے پہلے دن سے جو موقف دیا تھا ایک ایک واقعہ اس موقف کی تائید کررہا ہے ۔اور آج کے واقعے نے تو ہمارے موقف مہر تصدیق ثبت کردی ہے ۔انہوں نے جمہوریت کا چہرہ مسخ کیا ہے ۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ نئے الیکشن ہمارا روز اوّل سے مطالبہ ہے تاہم ہم آئین کے اندر رہنے کو ترجیح دیتے رہیں ، اداروں کے کردار اور احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔لیکن آج اداروں کی دھجیاں اکھیڑ دی گئیں ۔

 

ڈپٹی سپیکر نے جس انداز ،لب ولہجے ، جذباتی سے فیصلہ سنایا ، لگتا تھا کہ وہ فریق ہیں ، فیصلہ بتا رہا تھا کہ باہر سے آیا ہوا ہے ، انہوں نے اپنے اختیار کو استعمال نہیں کیا ۔لہذا یہ فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے ۔

فضل الرحمان نے کہا کہ کے پی کے بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں شکست کے بعد انہوں نے خزانے کے منہ کھول دیے، الیکشن ہمارا پہلے دن سے مطالبہ اور ہدف ہے، بحران پیدا کرکے جمہوریتیں نہیں چلتیں۔

Shares: