مجھے میری شناخت چاہیے،میرا ڈی این اے کرایا جائے، بیٹا مخدوم سید علمداررضا
لاہور :جب بھی شناخت مانگنے کی کوشش کی مجھ پر گولیاں برسائی گئیں ۔ مجھے یا میری ماں کو کچھ ہوا تو ذمہ دار مخدوم زادہ سید عباس اکبر ، شاہ محمود قریشی اور سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی ہوں گے،تفصیلات کے مطابق ملتان میں موجود دربارشیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم زادہ سید عباس اکبر کے بیٹے مخدوم سید علمدار رضا نے اپنے باپ کے خلاف شناخت کا مقدمہ درج کرا دیا ۔ مخدوم سید علمدار رضا کا کہنا ہے کہ دربارشیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم زادہ سید عباس اکبر انکے والد ہیں لیکن پچیس سے سال وہ اس بات سے انکاری ہیں کہ میں انکا بیٹا ہوں ۔
تفصیلات کے مطابق 18 اگست 1989 کو مخدوم زادہ سید عباس اکبراور ”شیریں نصیر“ کی ماڈل ٹاؤن لاہور میں شادی ہوئی ۔ چونکہ یہ لو میرج تھی اس لیے مخدوم زادہ سید عباس اکبرکی طرف سے کوئی گواہ پیش نہیں ہوا اور انہوں نے نکاح نامہ پر بھی ”خود مختار“ لکھا اور ماڈل ٹاؤن میں نکاح ہوا ۔ نکاح کے گواہان میں علمدار رضا کے نانا ، خالہ اور ماموں تھے ۔ شادی کے فوری بعد مخدوم زادہ سید عباس اکبر اپنی بیوی شیریں نصیر کو لیکر ماڈل ٹاؤن سے فیصل ٹاؤن میں شفٹ ہوئے ۔
12جنوری 1992 کو فیصل ٹاؤن میں موجود فیصل کلینک میں شیریں نصیر کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جسکا نام مخدوم سید علمدار رضارکھا گیا ۔ اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں مخدوم زادہ سید عباس اکبر نے اپنے ڈرائیور کے ہاتھ مٹھائی بھجوائی اور پھر کچھ دنوں بعد خود گھر آکر مبارکباد بھی دی اور بیٹے اور بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگے ۔
1995 میں مخدوم زادہ سید عباس اکبر نے دوسری شادی کرلی ۔ دوسری شادی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بہنوئی ”شجاعت حسنین قریشی“ کی بھانجی اور حیدر زمان قریشی کی بہن ”فاطمہ زارہ قریشی“ سے ہوئی ۔ دوسری جانب علمدار رضا کے تایا جان اور مخدوم زادہ سید عباس اکبرکے بڑے بھائی سید احسن شاہ کی شادی بھی شاہ محمود قریشی کی بہن سے ہوئی ۔ یوں مخدوم زادہ سید عباس اکبردوسری شادی کے بعد قریشی خاندان سے جُڑ گئے ۔
دوسری شادی کی خبر جب پہلی بیوی ”شیریں نصیر“ کو ملی تو وہ اپنے بیٹے مخدوم سید علمدار رضا کو اپنے ساتھ لیکر اپنے والدین کے گھر ماڈل ٹاؤن میں واپس چلی گئیں اور فیصل ٹاؤن والا گھر چھوڑ دیا ۔ اس دوران شیریں نصیر نے بہت کوشش کی کہ معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوجائیں لیکن معاملات ٹھیک ہونے کی بجائے مزید بگڑتے چلے گئے ۔ اسی دوران سید عباس اکبر نے بہت دفعہ شیریں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ”میں دونوں فیملیز کو سپورٹ کرسکتا ہوں لہذا یہ ایسے ہی چلنے دیا جائے “ لیکن انکی پہلی بیوی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھی۔ 1989سے لیکر 1991 کے آخر تک سید عباس اکبر نے اپنی بیوی شیریں نصیر کے ساتھ 6 ملکوں کے دورے کیے جن کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں ۔
1995سے لیکر 2010 تک مخدوم سید علمدار رضا اپنی ماں کے ساتھ ہی رہا اور انٹر نیشنل سکول آف شوئفات سے اے لیول کیا۔ مخدوم سید علمدار رضا کے ایڈمشن فارمز اور ڈگری ، شناختی کارڈکے اوپر اسکے والد کا نام ” مخدوم زادہ سید عباس اکبر“ درج ہے جبکہ مخدوم زادہ سید عباس اکبر اس بات کو مانتا نہیں کہ سید علمدار میرا بیٹا ہے ۔
مخدوم سید علمدار رضا کا کہنا ہے کہ 2011 میں اپنے والد سے ملنے کے لیے شیر شاہ ملتان گیا ۔ ڈرائیور مجھے جانتا تھا اس نے مجھے پہچان لیا اور میں نے ڈرائیور کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔
انکا کہنا ہے کہ میرا خیال تھا کہ میں اپنی ماں اور باپ کے درمیان معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ مجھے میری شناخت مل سکے ۔ انکا کہنا ہے کہ میرا ایک خیال یہ بھی تھا کہ میں اپنے والد سے کہوں کہ میری کچھ مدد کردیں تاکہ میں اپنی ماں کو لیکر اس ملک سے باہر چلا جاؤں تاکہ مجھے معاشرے کے طعنے معنے نہ سننے پڑیں ۔ انکا کہنا ہے کہ جیسے ہی پیغام بھجوایا تو پانچ منٹ بعد ہی مجھ پر ر فائرنگ کروا دی گئی ، میں بڑی مشکل سے وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ۔
جون 2016 میں مخدوم زادہ سید عباس اکبرکی پہلی بیوی شیریں نصیر نے اپنے خاوند مخدوم زادہ سید عباس اکبرپر لاہور سول کورٹ میں ” حق المہر اینڈ ریکوری آف مینٹیننس “ کا دعویٰ درج کرا دیا ۔ جسکے جواب میں مخدوم زادہ سید عباس اکبرکی طرف سے وکلاء نے عدالت میں جواب جمع کرایا ” میرا اس عورت (شیریں نصیر) سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ میں نے آج تک اسے دیکھا ہے ، یہ دعویٰ جعلی ہے ، نکاح نامہ جعلی ہے ، نکاح نامے پر میرے دستخط اصل نہیں ہیں ، یہ نکاح نامہ رجسٹرڈ نہیں ہے ، شناختی کارڈ کے مطابق جو نکاح نامہ پر عمر لکھی گئی ہے وہ بھی 10 سال زیادہ لکھی ہے لہذا یہ معاملہ سارا جعلی ہے اور اس عورت (شیریں نصیر) اور اسکے بیٹے مخدوم سید علمدار رضا کو مس گائیڈ کیا جا رہا ہے ، میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ یہ میرا بیٹا ہے “۔
جنوری 2017 میں مخدوم سید علمدار رضا نے لاہور سول کورٹ میں اپنے والد مخدوم زادہ سید عباس اکبراور والدہ شیریں نصیر کے خلاف” ڈیکلریشن آف پیرنٹل آئیڈنٹٹی “کا دعویٰ درج کرا دیا ۔ مخدوم زادہ سید عباس اکبرکی طرف سے عدالت میں درخواست دی گئی کہ جس جج کے پاس اسکی ماں کا کیس ہے اسی کے پاس یہ کیس بھی بھجوا دیا جائے تاکہ دونوں کیسز ایک عدالت میں ایک ہی وقت میں آگے چل سکیں ، جسے منظور کرلیا گیا اور یوں شیریں نصیر اور انکے بیٹے کا کیس ایک ہی عدالت میں لگا دیا گیا ۔ 4 ماہ تک سمنز ہوتے رہے لیکن مخدوم زادہ سید عباس اکبرکی طرف سے کوئی جواب عدالت میں نہیں جمع نہیں کرایا گیا ۔
4 جولائی 2017 کو مخدوم سید علمدار رضا نے جج بلال فیض رسول کو ”ڈی این اے ٹیسٹ“ کی درخواست دے دی اور عدالت سے یہ درخواست کی کہ یہ معاملہ بہت گھمبیر ہوتا جارہا ہے اور میرا والد یہ ماننے کو تیار نہیں کہ میں انکا بیٹا ہوں تو عدالت ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دے تاکہ سچائی سب کے سامنے آسکے ۔ لیکن عدالت ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم نہیں دیتی یہ کہتے ہوئے کہ ” میں ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دے تو دوں مگر آپ دیکھیں کہ اسکی رشتہ داری کس کس سے ہے کون کون ہے اسکی فیملی کی ریپوٹیشن کا کیا ہوگا ؟ ۔
اسی دوران مخدوم زادہ سید عباس اکبرکی طرف سے ملتان میں شیریں نصیر اور مخدوم سید علمدار رضا کے اوپر کیسز درج کرا دیئے جاتے ہیں کہ جو کیسز لاہور میں سول کورٹ میں مخدوم زادہ سید عباس اکبرکے اوپر بنے ہیں وہ بے بنیاد ہیں لہذا شیریں نصیر کو کیس کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔ درخواست میں موقف اپنایا کہ شیریں نصیر میری بیوی نہیں ہے اور علمدار رضا میرا بیٹا نہیں ہے یہ عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں ۔
7 مارچ 2019 کو لاہور ہائیکورٹ میں مخدوم زادہ سید عباس اکبر کی طرف سے درخواست جمع کروائی جاتی ہے کہ ملتان والے کیسز لاہور سول کورٹ میں منتقل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ میرے وکلاء ملتان اور لاہور میں بار بار جانے کی بجائے ایک ہی جگہ پر سب کیسز کو فالو کریں اور جب تک فائلیں لاہور نہیں آجاتیں تب تک سول کورٹ لاہور شیریں نصیر اور علمدار رضا کے کیسز کی کاروائی روک دے ۔ جسے منظور کرلیا گیا اور ملتان سے کیسز لاہور شفٹ کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ۔
طویل انتظار کے بعد جب شیریں نصیر اور علمدار رضا ملتان ڈسٹرکٹ کورٹ جج سہیل اکرم کی عدالت میں پیش ہوئے تو معلوم ہوا کہ 6 ماہ تک لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر(کیسز لاہور منتقل کرنے کا) ملتان نہیں پہنچا بلکہ اسے روک لیا گیا جبکہ ملتان میں موجود کیسز کی کاروائی بھی چلتی رہی اور شیریں نصیر اور علمدار رضا کی غیر حاضری لگتی رہی ۔جج کے سامنے جب حقیقت آئی تو اس نے کیسز کو فوری طور پر لاہور منتقل کرنے کا آرڈر دیا ۔ 26ستمبر کو لاہور سول کورٹ کی جج ”بشرہ راشد“ کے پاس فائلیں پہنچیں تو انہوں نے پہلے ملتان والے کیسز کو سننے کے لیے کاروائی شروع کی جبکہ شیریں نصیر اور علمدار رضا جو پچھلے ساڑھے تین سال سے عدالت میں دھکے کھا رہے تھے انکو پس پشت ڈال دیا ۔
مخدوم زادہ سید عباس اکبرکے بیٹے مخدوم سید علمدار رضا کا کہنا ہے کہ میرے کیسز پر شاہ محمود قریشی اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اثر انداز ہورہے ہیں ، ججز انکے پریشر میں ہیں اور چونکہ میں غریب ہوں اور میری پاس پیسہ نہیں ہے اس لیے مجھے اور میری ماں کو زلیل کیا جا رہا ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ میں کچھ نہیں چاہتا ، میں دربار نہیں چاہتا ، کوئی گدی نہیں چاہتا ، کوئی دولت نہیں چاہتا ، میں صرف اور صرف اپنے والد کی شناخت چاہتاہوں ۔
سید علمدار رضا نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اپیل کی ہے کہ میرے پاس سب ثبوت موجود ہیں جو یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مخدوم زادہ سید عباس اکبرمیرا باپ ہے اور مجھے یہ یقین دلایا جائے کہ میرے کیسز میں ججز پر کوئی پریشر نہیں ہوگا اور فیصلہ میرٹ پر ہوگا ۔ انکا کہنا ہے کہ اگر مجھے یا میری ماں کو کچھ ہوا تو اسکا ذمہ دار ”شاہ محمود قریشی“ ،”مخدوم زادہ سید عباس اکبر “ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ہوں گے۔ چیئرمین نیب سے اپیل کرتے ہوئے سید علمدار رضا کا کہنا تھا کہ میرے باپ نے دبئی اور یورپ میں بہت سی جائیدادیں خریدی ہیں جو انہوں نے الیکشن کمیشن میں ڈکلئیر نہیں کی ہیں انکے خلاف بھی ایکشن لیا جائے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل کرتے ہوئے علمدار رضا کا کہنا تھا کہ فی الفور شاہ محمود قریشی کا استعفیٰ لیا جائے ۔
رابطہ کرنے پر مخدوم زادہ سید عباس اکبر کے سیکرٹری یاسین کا کہنا تھا کہ عباس اکبر صاحب سالانہ میڈیکل چیک اپ کے لیے ملک سے باہر ہیں اور یہ معاملہ عدالت میں ہے ، عدالت جو فیصلہ کرے گی ہمیں منظور ہوگا۔ اگر فیصلہ بچے کے حق میں آتا ہے تو اسکے حقوق کی بات فیصلے کے بعد کی جائے گی ۔ شاہ محمود قریشی اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے حوالے سے یاسین کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ ہے کہ دونوں اشخاص کیسز پر اثر انداز ہو رہے ہیں ،
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی صاحب اور تصدق حسین جیلانی صاحب نے کسی کو کوئی فون نہیں کیا اور نہ انہوں نے کسی کو لکھ کر یہ کہا ہے کہ کیسز کو لٹکایا جائے یا وہ ججز کو پریشرائز کررہے ہیں ۔ انکا کہنا تھا کہ چند دنوں کی بات رہ گئی ہے ۔ جلد عدالت سچ سب کے سامنے لے آئے گی۔ انکا کہنا تھا کہ جواب دعویٰ میں شاہ محمود اور تصدق حسین جیلانی کا نام اس لیے لیا گیا کہ عدالت کوفیملی کی ریپوٹیشن کے حوالے سے آگاہ کردیا جائے ۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بیٹے ایڈووکیٹ ثاقب جیلانی کا کہنا تھا کہ ”علمدار رضا “ میرے والد پر جو الزامات لگا رہا ہے وہ بالکل بے بنیاد اور جھوٹے ہیں ۔ انکا کہنا تھا کہ تصدق حسین صاحب نے ساری زندگی عزت سے گزاری ۔ وہ خود بھی جج رہے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک ریٹائرڈ جج اس طرح کے کیس میں اپنا کردار ادا کررہا ہو۔ انکا کہنا تھا کہ ملتان ایک ایسا شہر ہے جہاں ہو سکتا ہے کہ کبھی عباس اکبر صاحب کی ملاقات میرے والد تصدق حسین سے ہوئی ہو لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمارے رشتہ دار بن گئے ۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بیٹے ایڈووکیٹ ثاقب جیلانی کہتے ہیں کہ ہماری کسی قسم کی کوئی رشتہ داری عباس اکبر کے خاندان سے نہیں ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ثاقب جیلانی کا کہنا تھا کہ عباس اکبر کی طرف سے عدالت میں جواب دعویٰ میں لکھی گئی درخواست میں تصدق حسین جیلانی صاحب کا ریفرنس انہوں نے کسی اور وجہ سے دیا ہوگا ۔ اپنے خاندان کی ساکھ کو ایکسپلین کرتے ہوئے کہا ہوگا لیکن ہمارا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ہمیشہ عزت کی زندگی گزاری ہے اور آگے بھی گزاریں گے ۔
سی بارے میں بات کرنے کے لیے متعدد بار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن فون اٹینڈ نہ کرنے کی صورت میں ان سے رابطہ نہ ہوسکا ۔
دوسری جانب قانونی حلقوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ صرف کریمنل کیسز میں کروایا جاسکتا ہے ، فیملی کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کا کوئی قانون پاکستان میں موجود نہیں ہے جو کہ قانون میں بہت بڑا خلا ہے جسے ختم کرنا بہت ضروری ہے۔