عبادت میں سودے بازی؟….استغفر اللہ

از قلم: مسز ناصر ہاشمی (بنت ربانی)

چھن چھن چھن۔۔۔گلے کی گھنٹیوں کے ساتھ پاؤں میں پڑے گھنگھرو کی آواز نے گاوں کے لڑکوں بالوں کو ہی نہیں بلکہ بڑے ،بوڑھوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا۔چھوکریاں اور ساتھ میں ان کی نانیاں دادیاں بھی بالکونیوں کے پردے ہٹا ہٹا کر نیچے جھانکنے لگیں۔
” شیرو” نامی بھاری بھرکم بیل تھا ہی اتنا خوبصورت۔
ساہیوال کی اعلی نسل کا یہ بیل چھیدا پہلوان نے عید کے موقع پر قربان کرنے کے لیے خریدا تھا۔کتنے کا ہتھایا ہے بھائی؟ کسی نے پوچھنے کی جرات کی۔بس۔۔۔۔۔15 لاکھ کا چھیدا مونجھروں کو تاو دیتے ہوئے بولا۔جھوم جھوم کر لایا گیا بیل اس نے اپنی حویلی میں موجود باڑے میں باندھ دیا۔اور حویلی کا مین گیٹ کھول دیا تا کہ آنے والے اس کا اچھے طرح نظارہ بلکہ معائنہ کر سکیں۔گاوں کے وڈے وڈیرے اسے حسد سے دیکھ رہے تھے اور کمی کمین مزارع حسرت سے۔
اس طرح کا نظارہ اس وقت بھی دیکھنے کو ملا تھا جب چھیدا پہلوان اپنے خاندان کے ہمراہ ساتواں حج کر کے لوٹا تھا۔ڈھول کی تھاپ پر رقص اور اس کی اکڑی ہوئی گردن میں پھولوں کے ہار دیکھ کر بہت سے لوگ جل رہے تھے اور چھیدا ان کی دلی کیفیت کو محسوس کر کے خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا۔
گاوں کی آدھی زمین پر قبضہ کرنے،غریب مزارعوں کو اپنا غلام اور ان کی لڑکیوں کو مال مفت سمجھنے کے بعد 9 حج اور 5 عمرے کر چکا تھا۔بیت اللہ سے زیارت کرنے کے بعد وہ ہر سال قربانی بھی کرتا اور نمازیں بھی پڑھنے لگا تھا۔مگر اس شعر کے مصداق
مسجد تو بنالی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں سے نمازی بن نہ سکا
نماز میں بھی آن بان قائم تھی۔بوسکی کا قیمتی لباس پہنے سر پہ رنگ برنگی دستار،ہاتھ میں قیمتی موتیوں کی تسبیح پہلی صف میں نماز پڑھنے کے بعد جب وہ باہر نکلا تو مسجد کے دروازے پر میلے کچیلے کپڑوں، پراگندہ بالوں،پریشان حال غریب مزارع نے صدا لگائی،سائیں سرکار!!بابا کو فالج ہو گیا ہے۔۔۔۔دو بہنوں کی شادی۔۔۔۔۔گھر میں فاقے۔۔۔۔چھیدا پہلوان نے اسے گھوری ڈالی اور پرے دھکیلنے ہوئے بولا میں نے تمہارا ذمہ نہیں لے رکھا۔
چند دنوں بعد ایک خبر نے سب لوگوں کو حیران کر دیا۔اچانک دل کے دورے سے چھیدا پہلوان انتقال کر گیا۔کوئی آنکھ اس کے لیے دل سے اشکبار نہ تھی۔جنازے میں شامل لوگ وڈے وڈیرے جاگیر، لمبی لمبی مونچھوں کو تاو دیتے ایسے ساتھ چل رہے تھے جیسے کسی مصیبت کو گلے سے اتارنے جا رہے ہوں اور جنہیں شاید سورہ فاتحہ تک نہ آتی تھی۔لاکھوں کا مال یتھیانے والا انسان اکیلا دنیا سے جا رہا تھا۔اور پھر قبر اور بعد میں دوزخ کے فرشتے اسے بیڑیاں پہنائے گرز مار مار کر جہنم کی طرف دھکیل رہے تھے اور ساتھ میں پوچھ رہے تھے کیا تمہاری طرف” ہادی” کی یہ آواز نہیں پہنچی؟
"اللہ تعالی کو ان (جانوروں) کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اسے تو اس (شخص) کا تقوی پہنچتا ہے۔”
کیا تمہیں معلوم نہیں تھا کہ:
” حج کے لیے زادراہ لے لو اور بہترین زادراہ تقوی ہے”
اور یہ بھی نہیں سنا تم نے:
” بےشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے”
کیا تم حقوق اللہ اور حقوق العباد سے نابلد تھے؟؟
لیکن۔۔۔۔۔چھیدے پہلوان کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔
عبادت میں سودے بازی سے اسے مہنگی پڑ چکی تھی۔۔۔

Shares: