تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے
ابراہیم اشک کا اصل نام ابراہیم خاں غوری تھا (20 جولائی 1951ء اجین ہندوستان، 16 جنوری 2022ء) ان کا شمار معروف شاعروں اور نغمہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کئی مقبول فلموں اور سیریلوں کے لیے نغمے اور اسکرپٹ لکھیں۔ نغمہ نگاری کا آغاز فلم ”کہو نہ پیار ہے“ سے کیا۔ اس فلم کے نغمے آج بھی اسی دلچسپی کے ساتھ سنے جاتے ہیں۔ نغموں کے علاوہ ان کی غزلوں کے متعدد البم ریلیز ہوئے۔
اشک کی پیدائش 20 جولائی 1951ء کو اجین، مدھیہ پردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اجین میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد ہندی ادبیات میں ایم اے کیا۔
اشک بہت زرخیز تخلیقی طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے متعدد شعری اصناف میں بہت کثرت سے شاعری کی۔ غزلیں کہیں، نظمیں کہیں، دوہے کہے۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں ’الہام‘ اور ’ آگہی‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اشک نے شاعری کے ساتھ تنقید بھی لکھی ۔ اقبال اور غالب پر ان کی کتابیں ان کی ثروت مند تنقیدی فکر کی اعلامیہ ہیں۔
متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔
تری زمیں سے اٹھیں گے تو آسماں ہوں گے
ہم ایسے لوگ زمانے میں پھر کہاں ہوں گے
خود اپنے آپ سے لینا تھا انتقام مجھے
میں اپنے ہاتھ کے پتھر سے سنگسار ہوا
زندگی وادی و صحرا کا سفر ہے کیوں ہے
اتنی ویران مری راہگزر ہے کیوں ہے
دنیا بہت قریب سے اٹھ کر چلی گئی
بیٹھا میں اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا
نہ دل میں کوئی غم رہے نہ میری آنکھ نم رہے
ہر ایک درد کو مٹا شراب لا شراب دے
کریں سلام اسے تو کوئی جواب نہ دے
الٰہی اتنا بھی اس شخص کو حجاب نہ دے
بس ایک بار ہی توڑا جہاں نے عہد وفا
کسی سے ہم نے پھر عہد وفا کیا ہی نہیں
چلے گئے تو پکارے گی ہر صدا ہم کو
نہ جانے کتنی زبانوں سے ہم بیاں ہوں گے
زندگی اپنی مسلسل چاہتوں کا اک سفر
اس سفر میں بارہا مل کر بچھڑ جاتا ہے وہ
کوئی بھروسہ نہیں ابر کے برسنے کا
بڑھے گی پیاس کی شدت نہ آسماں دیکھو
کوئی تو ہوگا جس کو مرا انتظار ہے
کہتا ہے دل کہ شہر تمنا میں لے کے چل
کس لیے کترا کے جاتا ہے مسافر دم تو لے
آج سوکھا پیڑ ہوں کل تیرا سایا میں ہی تھا
نام کو بھی نہ کسی آنکھ سے آنسو نکلا
شمع محفل میں جلاتی رہی پروانے کو
مجھے نہ دیکھو مرے جسم کا دھواں دیکھو
جلا ہے کیسے یہ آباد سا مکاں دیکھو
تھی حوصلے کی بات زمانے میں زندگی
قدموں کا فاصلہ بھی یہاں ایک جست تھا
نہیں ہے تم میں سلیقہ جو گھر بنانے کا
تو اشکؔ جاؤ پرندوں کے آشیاں دیکھو
بکھرے ہوئے تھے لوگ خود اپنے وجود میں
انساں کی زندگی کا عجب بندوبست تھا
یہ اور بات ہے کہ برہنہ تھی زندگی
موجود پھر بھی میرے بدن پر لباس تھا