لاہور:اگر صدر ٹرمپ ہارتے ہیں توکیا امریکی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آئے گی،حالات کیا کہتے ہیں ؟اس صدارتی انتخابات کو امریکا کا اہم ترین صدارتی انتخاب قرار دیا جا رہا ہے اور دنیا بھر کی نظریں اس الیکشن پر ٹکی ہیں۔ یہ الیکشن دراصل صدر ٹرمپ کی صدارت کافیصلہ کرنے جارہا ہے
جیسے جیسے انتخابات قریب سے قریب ترآتے جارہے ہیں دنیا کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، اوراب امریکی صدارتی الیکشن اب چار دن کی دوری پر ہیں۔ 66 لاکھ سے زائدچ امریکی ارلی ووٹنگ میں اپنا ووٹ ڈال چکے ہیں۔مگرفیصلہ نومبرکے پہلے ہفتے میں ہوگا
دنیا جانتی ہےکہ امریکی انتخابات مٰیں اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار صدر ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار سابق نائب صدر جوبائیڈن کے درمیان ہے اور دونوں کی توجہ کا مرکز سوئنگ سٹیٹس ہیں۔ ابھی تک کے سروے کے مطابق جوبائیڈن کو اپنے مدمقابل پر سبقت حاصل ہے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹکس کے مقابلے میں ریپبلکن پارٹی مجموعی طور پر سرمایہ داروں کی طرف داری کرتی ہے۔ بڑی کارپوریشنوں اور کاروباری افراد کو ٹیکس کی چھوٹ دیتی ہے جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی، کارپوریشنوں اور امیر افراد کو ٹیکس کی چھوٹ کم دیتی ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے پروگرام جیسے کہ ہیلتھ اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرتی ہے۔
ویسے تو بہت سے ایشوز اس وقت سیاسی ٹرینڈ کے طورپراستعمال ہورہے ہیں لیکن فی الحال سب سے اہم ایشو کووڈ 19، ہیلتھ کئیر ، ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتی نسلی پرستی ہے جس نے امریکہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ ان مسائل پر ڈیموکریٹک امیدوار جوبائیڈن، صدر ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ جوبائیڈن کا کہنا ہے صدر ٹرمپ کووڈ انیس سے پیدا ہونی والی صورتحال سے نمٹنے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں اور اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے سائنس دانوں کی طرف سے دی گئی حفاظتی تدابیر کا مذاق اڑاتے ہیں۔
ادھر امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک 220,000 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ یاد رہے کہ موسم سرما کی آمد آمد ہے اور ایک بار پھر کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں تیزی آ رہی ہے بلکہ ایک دن میں 75 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
موجودی امریکی صدرٹرمپ کہتے ہیں کہ وائرس سے پہلے امریکی معیشت ترقی کی بلند ترین سطح پر تھی اور بیروزگاری کی شرح کم ترین سطح یعنی 3.5 فیصد تھی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور یہ ملک کی اکانومی کو بند کرنے کے در پے ہیں جبکہ میں اس کو کھولنا چاہتا ہوں اور ایک بار پھر امریکی معیشت کو نو ماہ پہلے والی سطح پر لانا چاہتا ہوں تاکہ ملک میں جاری بے روزگاری ختم ہو سکے۔
امریکی عوام کا بڑا مسئلہ نظام صحت ہے ۔ سابق صدر اوباما نے اپنے دور میں ایک تاریخ ساز قانون افورڈ ایبل کئیر ایکٹ، جسے اوباما کئیر بھی کہا جاتا ہے، پاس کیا تھا۔ اس کے تحت ہر امریکی شہری کو ہیلتھ انشورنس کروانا لازمی قرار دیا گیا تھا اور ہر شخص کو اس کی آمدنی کے حوالے سے انشورنس کی رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ زیادہ آمدنی والے زیادہ اور کم آمدنی والے کم انشورنس ادا کرتے ہیں اور جو غریب ہے ان کی انشورنس ریاست کی طرف سے ادا کی جاتی ہے۔
ادھر امریکی موسمیات کے ماہرین کا تسلیم کرنا ہےکہ 2019 اور 2020 میں امریکا کو تاریخ کی شدید ترین وائلڈ فائر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سائنسدان اسے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ قرار دے رہے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ ایسی کسی بھی وارننگ پر دھیان دینے کو تیار نہیں۔ جب پہلے صدارتی مباحثے میں صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کو کیسے ختم کریں گے تو انہوں نے ایک بلین درخت لگانے کا منصوبہ پیش کیا جبکہ صدر بائیڈن نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کئی بلین ڈالر پر مبنی کلین انرجی پراجیکٹ کا اعلان کیا ہے، جس سے نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے گا بلکہ اس کے نتیجے میں ہزاروں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
یہ انتخابات امریکا کے 59ویں صدارتی انتخابات ہیں اور آج تک کسی بھی صدارتی امیدوار نے اس کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا۔ لیکن صدر ٹرمپ بڑے پیمانے پر دھاندلی کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ اسے ایک فراڈ کہتے ہیں۔
اس کے حوالے سے وہ پہلے صدارتی مباحثے میں جب ماڈریٹر نے پوچھا کہ کیا آپ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے تو انہوں نے کہا ’میں دیکھوں گا کہ انتخابات کتنے شفاف ہوئے ہیں۔‘ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر صدر ٹرمپ ہارتے ہیں تو حالیہ امریکی تاریخ میں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔








