اوفوا بالعھد ان العھد کان مسئولا (71 : 43)

”اور وعدہ کو پور اکرو ، بیشک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا“۔

وفائے عہد کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود سوال کرے گا اور جو لوگ وفائے عہد نہیں کرتے ، ان سے قیامت کے دن اس سلسلے میں باز پرس ہوگی۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی سے عہد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی ہے۔ اس عہد سے مراد وہ عہد بھی لیا جاسکتا ہے جو روز آفر ینش اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے یہ کہہ کرلیا تھا کہ کیا میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ؟اس عہد کی پاسداری نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور شرک کرنا ہے۔ ایک دوسرے سے کیے ہوئے عہد کو توڑنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا گناہ ہے۔ دنیا میں بھی عہد شکنی کرنے والے کی عزت کو شدید دھچکا لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نماز، حج اور ہر قسم کی نیکی لوگوں کی نظروں میں طعنہ بن جاتی ہے۔

مختصر یہ کہ ایفائے عہد کی اس قدر زیادہ اہمیت ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی نسبت بار بار اعلان فرمایا ہے کہ :

” ان اللہ لا یخلف المیعاد “۔ الرعد ٣ : ٣١) ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “
” لا یخلف اللہ المیعاد “۔ (الزمر ٣٩ : ٢٠) ” اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “
” انک لا تخلف المیعاد “ (آل عمران ٣ : ١٩٤) ” (اے ہمارے پروردگار) بلاشبہ تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “
” وعداللہ لا یخلف اللہ وعدہ “۔ (الروم ٣٠ : ٦) ” اللہ کا وعدہ ہے ‘ اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ “
” ولن یخلف اللہ وعدہ “۔ (الحج ٢٢ : ٤٧) ” اور اللہ ہرگز نہ ٹالے گا اپنا وعدہ ۔ “
(آیت) ” فلن یخلف اللہ عہدہ “۔ (البقرہ : ٢ : ٨٠) ” پس اللہ تعالیٰ اپنے قول وقرار کے خلاف نہ کرے گا۔ “
” ومن اوفی بعھدہ من اللہ “۔ (التوبہ ٩ : ١١١) ” اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا کون ہے ۔ “

جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا سچا اور اپنے عہد کا پکا ہے ‘ اسی طرح اس کے بندوں کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی سے جو وعدہ کریں وہ پورا کریں اور جو قول وقرار کریں اس کے پابند رہیں ‘ سمندر اپنا رخ پھیر دے تو پھیر دے اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو ٹل جائے مگر کسی مسلمان کی یہ شان نہ ہو کہ منہ سے جو کہے وہ اس کو پورا نہ کرے اور کسی سے جو قول وقرار کرے اس کا پابند نہ رہے ۔

عام طور پر لوگ عہد کے معنی صرف قول وقرار کے سمجھتے ہیں لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے وہ اخلاق ‘ معاشرت ‘ مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلا شرعا قانونا اور اخلاقا فرض ہے اور اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی ‘ شرعی قانونی اخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے اسی لئے قرآن مجید میں بار بار اس کا ذکر آیا ہے اور مختلف حیثیتوں سے آیا ہے ، ایک جگہ اصلی نیکی کے اوصاف کے تذکرہ میں ہے ۔

” والموفون بعھدھم اذا عاھدوا “۔ (البقرہ ٢ : ١٧٧)
اور اپنے قول وقرار اور عہد کو پورا کرنے والے جب وہ عہد کریں ۔
بعض آیتوں میں اس کو کامل ال ایمان مسلمانوں کے مخصوص اوصاف میں شمار کیا گیا ہے ۔

” والذین ھم لامنتھم وعھدہم راعون “۔ (المومنون ٢٣ : ٨)
اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں ۔

ایک دوسری سورة میں جنتی مسلمانوں کے اوصاف کا نقشہ کھینچا گیا ہے اس کی تصویر کا ایک رخ یہ ہے :

” والذین ھم لامنتھم وعھدہم راعون “۔ (المعارج ٧٠ : ٣٢)
اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں ۔

تمام عہدوں میں سے سب سے پہلے انسان پر اس عہد کو پورا کرنا واجب ہے جو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ہوا ہے ‘ یہ عہد ایک تو وہ فطری معاہدہ ہے جو روز الست کو بندوں نے اپنے خدا سے باندھا اور جس کو پورا کرنا اس کی زندگی کا پہلا فرض ہے چنانچہ ارشاد ہوا:
” الذین یوفون بعھد اللہ ولا ینقضون المیثاق والذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل “۔ (الرعد ١٣ : ٢٠ ، ٢١)

جو اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اپنے اقرار کو نہیں توڑتے اور جو خدا نے جن تعلقات کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو جوڑے رکھتے ہیں ۔

اس آیت میں پہلے اس فطری عہد کے ایفاء کا ذکر ہے جو خدا اور بندہ کے درمیان ہے پھر اس قول وقرار کا جو باہم انسانوں میں ہوا کرتا ہے ‘ اس کے بعد اس فطری عہد کا ہے جو خاص کر اہل قرابت کے درمیان قائم ہے ۔

سورة نحل میں اللہ کے عہد کا مقدس نام اس معاہدہ کو بھی دیا گیا ہے جو خدا کو حاضر وناظر بتا کر یا خدا کی قسمیں کھا کھا کر بندے آپس میں کرتے ہیں ، فرمایا :

” واوفوا بعھد اللہ اذا عاھدتم ولا تنقضو ال ایمان بعد توکیدھا وقد جعلتم اللہ علیکم کفیلا “۔ (النحل ١٦ : ٩١)

اور اللہ کا نام لے کر جب تم آپس میں ایک دوسرے سے اقرار کرو تو اس کو پورا کرو اور قسموں کو پکی کرکے توڑا نہ کرو اور اللہ کو تم نے اپنے پر ضامن ٹھہرایا ہے ۔

سورة انعام میں بھی ایک اور عہد الہی کے ایفا کی نصیحت کی گئی ہے ، فرمایا :

” وبعھد اللہ اوفوا ذلکم وصکم بہ لعلکم تذکرون “۔ (الانعام ٦ : ١٥٢)
اور اللہ کا اقرار پورا کرو ‘ یہ اس نے تم کو نصیحت کردی ہے تاکہ تم دھیان رکھو۔

صلح حدیبیہ میں مسلمانوں نے کفار سے جو معاہدہ کیا تھا ‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی کارسازی نے یہ موقع بہم پہنچایا کہ فریق مخالف کی قوت روز بروز گھٹتی اور اسلام کی قوت بڑھتی گئی اس حالت میں اس معاہدہ کو توڑ دینا کیا مشکل تھا مگر یہی وہ وقت تھا جس میں مسلمانوں کے مذہبی اخلاق کی آزمائش کی جاسکتی تھی کہ اپنی قوت اور دشمنوں کی کمزوری کے باوجود وہ کہاں تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتے ہیں ‘ چناچہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس معاہدہ کی استواری اور پابندی کی یاد دلائی اور فرمایا کہ تم اپنی طرف سے کسی حال میں اس معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرو جن مشرکوں نے اس معاہدہ کو توڑا تھا ان سے لڑنے کی گو اجازت دے دی گئی تھی اور مکہ فتح بھی ہوچکا تھا پھر بھی یہ حکم ہوا کہ انکو چار مہینوں کی مہلت دو ۔

” برآء ۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین فسیحوا فی الارض اربۃ اشھر واعلموا انکم غیر معجزی اللہ “۔ (التوبہ ٩ : ١)
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو پورا جواب ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا تو پھر لو (تم اے مشرکو) ملک میں چار مہینے اور یقین مانو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے ۔

آگے چل کر جب یہ اعلان ہوتا ہے کہ اب ان مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے معاہدہ کی ذمہ داری نہیں رہی تو ساتھ ہی ان مشرکوں کے ساتھ ایفائے عہد کی تاکید کی گئی جنہوں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی حرمت کو قائم رکھا تھا فرمایا :

” الا الذین عاھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا ولم یظاھروا علیکم احدا فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم ان اللہ یحب المتقین “۔ (التوبہ ٩ : ٤)

مگر جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا تھا پھر انہوں نے تم سے کچھ کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کو مدد دی تو ان سے ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک پورا کرو ‘ بیشک اللہ کو پسند آتے ہیں تقوی والے ۔

اور ان مشرکوں کے ساتھ اس ایفائے عہد کو اللہ تعالیٰ تقوی بتاتا ہے اور جو اس عہد کو پورا کریں ان کو متقی فرمایا اور ان سے اپنی محبت اور خوشی کا اظہار فرمایا آگے بڑھ کر ان مشرکوں سے اپنی براءت کا اعلان کرتے وقت جنہوں نے اس معاہدہ کو توڑا تھا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو پھر تاکید فرماتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ جوش میں ان عہد شکن مشرکوں کے ساتھ ان مشرکوں کے ساتھی بھی خلاف ورزی کی جائے جنہوں نے اس معاہدہ کو قائم رکھا ہے ۔

” کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ وعند رسولہ الا الذین عاھدتم عند المسجد الحرام فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم ان اللہ یحب المتقین “۔ (التوبہ ٩ : ٧)

مشرکوں کے لئے ان کے پاس اور اس کے لئے رسول کے پاس کوئی عہد ہو ‘ مگر وہ جن سے تم نے مسجد حرام کے نزدیک معاہدہ کیا جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں تم ان سے سیدھے رہو بیشک اللہ کو تقوی والے پسند آتے ہیں ۔

سیدھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی اس عہد کو پورا کرتے رہو اور جو لوگ اپنے عہد کو اس احتیاط سے پورا کریں ان کا شمار تقوی والوں میں ہے جو قرآن پاک کے محاورہ میں تعریف کا نہایت اہم لفظ ہے اور تقوی والے اللہ تعالیٰ کی محبت اور رضامندی کی دولت سے سرفراز ہوتے ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ معاہدہ کا ایفا اللہ تعالیٰ کی خوشی اور پیار کا موجب ہے اور یہ وہ آخری انعام ہے جو کسی نیک کام پر بارگاہ الہی سے استعمال کیا گیا ہے ۔

” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود “۔ (المائدہ : ٥ : ١)

مسلمانو ! (اپنے اقراروں کو پورا کرو۔

(عقد) کے لفظی معنی گرہ اور گرہ لگانے کے ہیں اور اس سے مقصود لین دین اور معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے اور اصطلاح شرعی میں یہ لفظ معاملات کی ہر قسم کو شامل ہے چناچہ امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں ” اوفوا بالعھد “۔ خداوند تعالیٰ کے اس قول کے مشابہ ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود “۔ اور اس قول میں تمام عقد مثلا عقد بیع ‘ عقد شرکت ‘ عقد یمین ‘ عقد نذر ‘ عقد صلح ‘ اور عقد نکاح داخل ہیں ، خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت کا اقتضاء یہ ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو عقد اور جو عہد قرار پایا جائے اس کے مطابق دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے ۔ (تفسیر کبیر جلد ٢ ص ٥٠٥)

لیکن (عقد) کا لفظ جیسا کہ کہا گیا صرف معاملات سے تعلق رکھتا ہے اور عہد کا لفظ اس سے بہت زیادہ عام ہے یہاں تک کہ تعلقات کو اس ہمواری کے ساتھ قائم رکھنا جس کی توقع ایک دوسرے سے ایک دو دفعہ ملنے جلنے سے ہوجاتی ہے حسن عہد میں داخل ہے ، صحیح بخاری کتاب الادب میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ مجھ کو حضرت خدیجہ (رض) سے زیادہ کسی عورت پر رشک نہیں آیا ‘ میرے نکاح سے تین سال پیشتر انکا انتقال ہوچکا تھا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا ذکر کیا کرتے تھے اور بکری ذبح کرتے تھے تو اس کا گوشت ان کی سہیلیوں کے پاس ہدیتا بھیجا کرتے تھے یعنی حضرت خدیجہ (رض) کی وفات کے بعد بھی ان کی سہیلیون کے ساتھ وہی سلوک قائم رکھا جو ان کی زندگی میں جاری تھا ۔ امام بخاری (رح) نے کتاب الادب میں ایک باب باندھا ہے جس کی سرخی یہ ہے ” حسن العھد من ال ایمان “ اور اس باب کے تحت میں اسی حدیث کا ذکر کیا ہے ۔

حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں حاکم اور بیہقی کے حوالہ سے یہ روایت کیا ہے کہ ” ایک بڑھیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا کہ تم کیسی رہیں ‘ تمہارا کیا حال ہے ‘ ہمارے بعد تمہارا کیا حال رہا ؟ اس نے کہا اچھا حال رہا ۔ جب وہ چلی گئی تو حضرت عائشہ (رض) نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بڑھیا کی طرف اس قدر توجہ فرمائی ؟ فرمایا عائشہ ‘ یہ خدیجہ کے زمانہ میں ہمارے ہاں آیا کرتی تھی اور حسن عہد ایمان سے ہے ۔ “ یعنی اپنے ملنے جلنے والوں سے حسب توقع یکساں سلوک قائم رکھنا ایمان کی نشانی ہے سبحان اللہ۔

یہاں ہم کچھ اور احادیث مبارکہ ذکر کرتے ہیں

(عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ؓ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ اَ لَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلٰی مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَا اَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَاِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ اِلَّامَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّہَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَاوَفِی رِوَایَۃٍ قَالَ لَہٗ یَا اَبَاذَرٍّ اِنِّیْ اَرَاکَ ضَعِیْفًا وَاِنِّیْ اُحِبُّ لَکَ مَا اُحِبُّ لِنَفْسِیْ لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَی اثْنَیْنِ وَلَا تَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیْم)
[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب کَرَاہَۃِ الإِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ ]

”حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی ‘ کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں عنایت فرماتے ؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے فرمایا اے ابوذر ! یقیناً تو کمزور آدمی ہے اور یہ عہدہ امانت ہے جو قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حقوق کو پورا کیا اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔ ایک روایت میں ہے۔ آپ نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا : اے ابوذر ! میرے خیال میں تم کمزور آدمی ہو۔ میں تیرے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہوں ‘ جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ دو آدمیوں کی بھی ذمّہ داری نہ اٹھانا اور نہ ہی یتیم کے مال کی ذمّہ داری لینا۔“

(عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِوَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ)
[ رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر ]

”حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی مقعد کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا ‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار ! سربراہ مملکت کی عہد شکنی سب سے بڑی ہوتی ہے۔“

(عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ؓ قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ ﷺ إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ احمد ]

”حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں نبی معظم ﷺ نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو شخص وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“

قرآن مجید کی آیات اور فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا ہے کہ وفائے عہد ہی اصل معیار ہے کہ کون شخص ٹھوس اور ثابت قدم ہے ، کون ضمیر کے اعتبار سے پاکیزہ ہے چاہے یہ عہد اللہ کی طرف سے ہو ، لوگوں کی طرف سے ہو ، فرد کی طرف سے ہو ، کسی جماعت یا سوسائٹی کی طرف سے ہو ، رعایا کی طرف سے ہو یا حکومت کی طرف سے ہو ، حاکم کی طرف سے ہو یا محکوم کی طرف سے ، نیز بین الاقوامی تعلقات میں اسلام نے عہد کی پابندی کی وہ مثایں قائم کیں کہ انسانی تاریخ میں ایسی مثالیں صرف اس حصے میں ملتی ہیں جن میں مسلمان دنیا کے حکمران تھے ، یا دنیا کے حکمرانوں میں سے معتبر حکمران تھے.

یہ بھی انفرادی اخلاقی ہدایت نہیں بلکہ جب اسلامی حکومت قائم ہوئی تو اسی کو پوری قوم کی داخلی اور خارجی سیاست کا سنگ بنیاد ٹھہرایا گیا۔ اسلامی اخلاق میں ڈپلومیسی کے نام پر وعدے کی خلاف ورزی اور جھوٹ بولنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیاستدانوں میں یہ بات عام ہے کہ سیاسی وعدے پورا کرنے کے لیے نہیں ہوتے اور اپنی کہی ہوئی بات سے مکر جانا سیاستدان کا حق ہے۔ لیکن اسلام میں یہ ایک جرم ہے چاہے اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے۔ اس لیے جس طرح عہد کی پابندی افراد کے لیے ضروری ٹھہری اسی طرح اسلامی حکومت بھی اس کی پابند رہی اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اسلامی حکومتیں عہد و پیمان کو نبھاتی رہیں۔ تاریخ میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت امیر معاویہ (رض) نے قیصر سے جنگ بندی کا ایک معاہدہ کیا اور یہ طے کیا گیا کہ فلاں تاریخ تک جنگ بند رہے گی۔ چناچہ جب اس معاہدے کا آخری دن آیا تو آپ (رض) نے آخری دن کا سورج غروب ہوتے ہی اپنی فوجیں اس کی مملکت میں داخل کردیں۔ بظاہر یہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں تھی کیونکہ معاہدے کی مدت گزر گئی تھی۔ فوجیں فتح کا پھریرا لہراتے ہوئے آگے بڑھتی جا رہی تھیں کہ پیچھے سے سر پٹ دوڑتا ہوا ایک سوار نظر آیا۔ اسے دیکھ کر امیر معاویہ رک گئے۔ جب وہ قریب آیا تو دیکھا کہ ایک مشہور صحابی عمرو بن عبسہ (رض) ہیں جنھوں نے ہاتھ بلند کیا ہو اتھا اور وہ بلند آواز سے کہہ رہے تھے کہ وفائً لاغدرًا ”وعدہ توڑنا نہیں پورا کرنا ہے۔“

امیر معاویہ (رض) نے حیران ہو کر پوچھا کہ ”ہم نے کون سا وعدہ توڑا ؟“ انھوں نے بتایا کہ ”معاہدے کی مدت ختم بھی ہوجائے تب بھی حملہ کرنے سے پہلے دشمن کو بتلانا ضروری ہے۔ بیخبر ی میں حملہ کرنا یہ ایک طرح کی وعدہ خلافی اور معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔“ امیر معاویہ نے اسی وقت مفتوحہ علاقے خالی کردیے اور فوجوں کو واپسی کا حکم دے دیا۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ صرف اخلاقی نصیحتیں نہ تھیں ‘ بلکہ اسلامی حکومتوں کے رہنما اصول تھے.

آج ہمارے وطن عزیز پاکستان کے مسائل کی بڑی وجہ بھی اللہ تعالیٰ سے کئے ہمارے عہد و پیماں ہی ہیں جو پورے کرنے سے اب تک قاصر رہے ہیں۔

پاکستان بنتے وقت ہمارا اللہ رب العزت سے وعدہ تھا اللہ وطن دے ہم لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کا وطن بنائیں گے جو اس وقت ہمارے بڑوں نے نعرے کی صورت ہمیں دیا تھا قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر علامہ محمد اقبال تک یہی بات تھی جو اللہ نے ہمیں وطن عزیز پاکستان کی صورت میں عطا فرمایا وہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ لیکن 75 سال گزرنے کے باوجود اس عہد کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں یاد رکھو!

"نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے ”

اللہ تعالیٰ ہمیں وعدوں کو پورا کرنے والا بنائے

Shares: