اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حالیہ احتجاج کو رکوانے کے لیے دائر درخواست کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، جس کے دوران اہم حکومتی عہدیداران کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت دی گئی۔ یہ سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے کورٹ روم نمبر ون میں ہوئی، جہاں درخواست گزار کی نمائندگی راجہ حسن اختر کر رہے تھے۔ سماعت کا آغاز عدالت کے سوالات اور درخواست گزار کے وکیل کی فوری نوعیت کی وضاحت سے ہوا۔چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کے آغاز میں درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اتنی جلدی کیا ہے جس کی وجہ سے ہفتے کے روز کیس کی سماعت کی جا رہی ہے؟ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ہفتہ کے روز سماعت عموماً نہیں ہوتی، تاہم اگر درخواست فوری نوعیت کی ہے تو وضاحت کی جائے۔ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ گزشتہ دو دنوں سے اسلام آباد میں شدید احتجاج کی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے شہر بھر میں نظام زندگی درہم برہم ہو چکا ہے۔ وکیل نے مزید کہا کہ اسلام آباد میں کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر معطل ہیں، طلبہ کے امتحانات متاثر ہو رہے ہیں، اور یومیہ ڈیڑھ لاکھ شہریوں کی آمدورفت میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آئندہ چند دنوں میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی کانفرنس بھی ہونے جا رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد میں ابھی کچھ وقت ہے، تاہم شہریوں کے حقوق اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنایا جانا چاہیے، اور حکومت کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا اسی کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک شہری کے حقوق کے ساتھ ساتھ دیگر شہریوں کے حقوق کا بھی احترام ضروری ہے، اور حکومت کو اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ کو عدالت میں طلب کیا جائے اور پولیس کے کسی ذمہ دار افسر کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ شہر کی موجودہ صورتحال پر وضاحت دی جا سکے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ کو طلب کرنا شاید مناسب نہ ہو، تاہم اگر وہ دستیاب ہیں تو انہیں بھی عدالت میں پیش ہونے کا کہا جائے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے شہر میں موبائل سگنلز کی معطلی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ گزشتہ دو دنوں سے موبائل سروس کیوں بند ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی شہری کو ایمرجنسی کی صورت میں ضرورت پڑ جائے تو وہ کیسے مدد حاصل کرے گا؟ عدالت نے کہا کہ شہریوں کو بنیادی سہولتوں سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کو اس معاملے پر غور کرنا چاہیے۔
سیکریٹری داخلہ کی وضاحت
عدالت میں سیکریٹری داخلہ خرم علی آغا کی آمد پر چیف جسٹس نے براہ راست استفسار کیا کہ شہر کی مکمل بندش کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ سیکریٹری داخلہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ملائشیا کے وزیراعظم اسلام آباد میں موجود تھے، جس کی وجہ سے سکیورٹی خدشات کے تحت یہ اقدامات کیے گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ چند روز میں اہم سعودی وفد بھی پاکستان پہنچ رہا ہے، جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس بھی ملک کے لیے ایک اہم موقع ہے۔ اس لیے حکومت کو حفاظتی اقدامات کرنا ناگزیر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو شہریوں کے برابر کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے متوازن فیصلے کرنے ہوں گے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے اور انہیں ان کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ کرے۔سماعت کے اختتام پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری داخلہ اور دیگر سرکاری عہدیداران کو حکم دیا کہ وہ امن و امان کی صورتحال اور شہریوں کے حقوق کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کریں اور آئندہ سماعت پر عدالت کو تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

Shares: