احتساب اور نیا سال
ازقلم:اعظم فاروق
آج 2019 کئی یادوں کے ساتھ جدا ہونے کو ہے اس سال کے اندر کئی ہمارے عزیز و اقارب ہم سے جدا ہو چکے ہیں. کئی لوگوں کے لیے یہ سال بہت اچھا گزرا ہو گا اور کچھ لوگوں کے لیے باعثِ زحمت بھی ہو سکتا ہے.
دنیا کے اندر کئی نظام موجود ہیں اور ہر نظام کو چلانے کے لیے احتساب کا نظام بھی بنایا گیا ہے تاکہ سسٹم کی روانی کو یقینی بنایا جائے اسی طرح ہمارے ملک پاکستان کے اندر بھی ایک احتساب کا سسٹم موجود ہے اور آجکل احتساب کا بازار بہت گرم ہے ہر آتے دن کے ساتھ سیاستدانوں کو کرپشن کے الزامات میں قید وبند کیا جا رہا ہے کو ئی اس کو سیاسی انتقام کہہ رہا ہے اور کوئی کچھ. مگر ملزمان ایک بات ہی کہہ رہے ہیں ہم بے قصور ہیں. اور اس احتسابی عمل کے دوران ہم عوام نے کم وبیش 40 سال ردی کی ٹوکری کی نذر کئے. کیونکہ اس سے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے. یہ کام ریاست کا ہے ہمارا نہیں
ہمیں حکومت پہ ٹکٹکی باندھے رکھنے کی بجائے دوسروں کے احتساب کا انتظار کیے بغیر ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیئے
ہر فرد کی خواہش ہے دوسرا ٹھیک ہو مجھے کوئی کچھ نہ کہے. کاروباری افراد اپنا گھراؤ کریں کیا میں ٹیکس ادا کر رہا ہوں؟ طلباء اپنی تعلیمی کارکردگی کا محاسبہ کریں. حتیٰ کہ ایک عام شہری اپنے فرائض کا جائزہ لے تو کافی حد تک اس معاشرے سے خرافات کا خاتمہ ہو سکتا ہے
آج 2019 بھی ہماری زندگی سے نکل گیا اور ہم جشن منا رہے ہیں اوہ بھئی کس بات کا جشن؟
جشن دو صورت میں ہی ہو سکتا ہے
ہماری زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہوا حالانکہ ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک سال کم ہوا ہے
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جو قدرت نے ہماری ذمہ داری لگائی تھی وہ ہم نے اس سال کے اندر مکمل کی ہیں تو یہ بات بھی ناممکن ہے
تو پھر جشن کیوں….؟
ذرا سوچیں ہماری زندگی سے ایک اور سال کم ہو گیا تو جشن کی بجائے ہم اپنا محاسبہ خود کریں کیونکہ یوم فرقان کے دن ہر روح اپنی جواب دہ ہو گی.
جشن کی بجائے ہم یہ دیکھیں کہ گزشتہ سال میں ہم
نے
کیا رب کی بندگی کی ہے؟
انسان ہو نے کہ ناطہ انسانیت کے لئے کیا کیا؟
اپنے آپ کو کتنا جنت کے قریب کیا؟
اپنے آپ کو کتنا بئس المصیر سے دور کیا؟
معاشرے کے لئے کیا کردار ادا کیا؟
بلکہ یہ محاسبہ تو روزانہ کی بنیاد پر ہونا چاہیے تاکہ انسان اَدھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے اپنا کام احسن طریقے سے کرے.
اگر یہ والی سوچ ہر فرد کے اندر پیدا ہو جائے کہ میں جو کروں گا اس کا خود جوابدہ ہوں تو یہ نیب جیسے ادارے کی بھی ضرورت نہ پڑے اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے.
تو آئیے اس نئے سال کے موقع پر اپنا محاسبہ کریں
گزشتہ سال میں کیا کمایا
روٹھے لوگوں کو منائیں
اپنے آپ کو اپنے رب کے قریب کریں
گزشتہ سال کی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کریں تاکہ اگلا سال بھی ناکامیوں کی نذر نہ ہو جائے کیونکہ وقت کبھی رکتا نہیں یہ چلتا رہتا ہے اس وقت کو سب سے قیمتی جانتے ہوئے
آئندہ سال کے اہداف کا تعین کریں تا کہ ملک وقوم کے لیے تعمیری کردار ادا کر سکیں اور اپنے رب کے حضور پیش ہوتے وقت شرمندگی کا سامنا نہ ہو

Shares: