امام حسینؓ بن علی ؓ کی ذات گرامی فضائل اخلاق کا مجموعہ تھی ۔آپؓ بہت عبادت گزار ، عاجز و بہادر ،روزے دار، سخاوت پسند تھے ۔امام حسینؓ کی سخاوت کا ذکر گرامی صرف فرش والے نہیں بلکہ عرش والے بھی کرتے ہیں

ہمارے مُعاشرے میں جو شخصيت جس قَدربلند مرتبے کی حامل ہوتی ہے وہ عاجزی و انکساری جیسی عظیم صِفات  سے عاری ہوتی ہے مگر قربان جائیے !امام حسینؓ کے اندر یہ صِفات بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔آج اگر کوئی اس دنیا  کے کسی  منصب پر فائز ہوجائے یا  اُسے کوئی بڑا عُہدہ مل جاتا ہے تواُس کے اُٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے، وہ غریبوں سے ملنا،ان کے دکھ سکھ میں ساتھ دینا تو دُور کی بات اُنہیں دیکھنا تک پسند نہیں کرتے ہیں ۔ایسے متکبر لوگوں کو امام حسینؓ کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنا چاہیے۔

ایک دفعہ ایک فقیر در دولت آ پہنچا ۔امام حسینؓ اللہ ﷻ کی عبادت میں مصروف تھے ۔ایسے میں اس فقیر کی آواز آپؓ کو سنائی دی امام حسینؓ نے فورا عبادت مختصر کی اور اپنے ساتھی سے پوچھا کیا ہمارے اخراجات میں سے کچھ باقی ہے؟؟ ساتھی نے عرض کی کہ آپؓ نے ٢٠٠ درہم اہل بیت میں تقسیم کیلٸے دیٸے تھے وہ ابھی تک تقسیم نہیں کئے۔ امام حسینؓ نے فرمایا یہ تمام درہم لے آﺅ اب اہل بیت سے زیادہ ایک حق دار آ گیا ہے ۔لہذا امام حسینؓ نے یہ دو سو درہم کی تھیلی اس فقیر کو دے دی سبحان الله، آپؓ اکثر غریب و مسکین کے گھروں میں خود کھانا پہنچاتے تھے۔

امام حسینؓ  کی شان کے قربان  کہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ دعوت کرنے والے خود مسکین و مفلوک الحال ہیں ایک دفعہ امام حسین کے راستے میں فقرا بیٹھے کھانا کھا رہے تھے آپؓ کو دیکھ کر فقرا نے آپؓ کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کو کہا ۔ امام حسینؓ نے گھوڑے سے اترے اور ان کے ساتھ کھانا تناول کیا۔ اور ارشاد فرمایا میں نے آپ کی دعوت قبول کی ،اب آپ میرے ساتھ میرے گھر میں دعوت قبول کرو۔ پھر آپؓ نے فقرا کو اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلایا۔

اِس سے ہمیں بھی یہ سبق ملتا ہے کہ جب  بھی کسی کی دل جُوئی  کرنے مثلا ً ضرورت مندوں کی  مَدَد کرنے،انکے کی غمگساری  کرنے، انکی کی عیادت  کرنے ،انکے فوت شدہ احباب کی تعزیت کرنے ،ان کی دعوت قبول کرنے الغرض جب بھی اِس طرح کے مَوَاقع ملیں تو اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ محتاجوں اور غریبوں کا  دل خوش کرکے ثوابِ عظیم کا حَقْدار بننا چاہیے.

‎@JahantabSiddiqi

Shares: