امام حسینؓ ، دلیری و شجاعت کی داستان تحریر: حمزہ احمد صدیقی

0
62


حسینؓ بن علیؓ کا یہ ایثار و قربانی تاریخ دین اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو ہر رہروان منزل شوق و محبت و الفت ، ایمان والوں کیلٸے ایک عظیم ترین نمونہ ہے۔ کربلا کے میدان میں حسینؓ بن علیؓ اور شہدا ٕ کربلا ؓ نے یزید معلون کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا
دس محرم الحرام کو زمین و آسمان نے کربلا کے میدان میں حق وباطل کا محیّرالعقول سانحہ دیکھا کہ جب حاکمیتِ الہیٰ اور شریعتِ محمدی ﷺکے تحفّظ و بقا کے لیے امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے یزیدیت کے سامنے سَر جھکانے کی بجائے اپنے ساتھیوں کو خاتم النبیین ﷺ کے دین اسلام پر قربان کردیا۔

قارئين اکرام!8 ذی الحج 6 ہجری کو مکے مکرمہ سے روانگی کے وقت اپنے ساتھیوں کو جمع فرما کر ایک خطبہ دیا اور فرمایا جو شخص راہ اللہﷻ میں جان قربان کرنا پسند کرتا ہو وہ میرے روانہ ہو ۔ہم ان شاء اللہ صبح ہوتے ہی یہاں سے روانہ ہوجاٸے گے ۔ حسینؓ بن علیؓ اس سے باخبر تھے کہ آپؓ کے فرائض امامت کا اہم جزو کربلا میں شہادت تھا۔ حسینؓ بن علیؓ اپنے شہادت کا تذکرہ اپنے نانا جان حضرت مُحَمَّد ﷺ سے بچپن سے سنتے آرہے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ خاتم النبیین حضرت مُحَمَّد ﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی تھی کہ میرا بیٹا حسینؓ بن علیؓ میدان کربلا میں شہید کر دیے جائیں گے اور جبرائیل علیہ السلام میرے پاس مٹی اس میدان کربلا کی لائے ہیں کہ یہی ان شہادت ہوگی

حسینؓ بن علیؓ جب میدان کربلا پہنچے تو یزید معلون کو بڑی دلیری شجاعت سے کہا کہ میں تیری بیعت نہیں کرونگا ۔حسین ؓ بن علیؓ نے ظلم و جبر کے آگے شہادت کو گلے لگانے کو فوقیت دی ۔امام حسینؓ نے دین اسلام کی سر بلندی سے یزید معلون سے لڑنا بہتر سمجھا اور ارشاد فرمایا شہادت کو ترجيح دی

یزیدی لشکر کے ایک سپاہی عبد ﷲ بن عمار کہتے ہیں حضرت حسین ؓ بن علیؓ کا محاصرہ ہوا تو اللہ کی قسم کہ میں نے حسینؓ بن علیؓ سے پہلے اور بعد کوئی ایسا بشر نہیں دیکھا ،جو کثیر دشمنوں کی تعداد میں اس طرح گھیرا ہوا ہو اور انکے ساتھیوں کو شہید کر دئے گیا مگر پھر بھی امام حسینؓ صبروتحمل کی اعلی مثال بنے رہے ۔شب روز حسینؓ بن علیؓ کی مصیبت بڑھتی جاتی آپ ؓ کے وقار و تمکنت میں اضافہ ہوتا جاتا اور انکے چہرے مبارک کی تا بندگی بڑھتی رہتی ۔

امام حسینؓ نے ایک ایک کرکے عزیز و اقارب اور اپنے جگر گوشوں کو خاک و خون میں نہاتے دیکھا آپ ؓ کے سامنے معصوم بچّوں و بچیوں کے سینے زہر آلود تیروں سے چھلنی کیا جارہے تھے اور بھوک و پیاس سے نڈھال بچّیوں کی صدائوں سے کربلا کی فضائیں لرزتی رہیں، یہاں تک کہ امام حسینؓ نے خود بھی سیکڑوں دشمنوں کے سَر قلم کرتے ہوٸے شہید کردٸیے گے، امام حسینؓ کے جسم مبارک پر ٣٣ زخم نیزوں کے ٤٣ تلواروں کے اور آپؓ کے پیرہن شریف میں ١٢١ سوراخ تیر کے تھے۔جنگ کے دوران میں تین دن تک بھوک پیاس میں رہے مگر شجاعت و دلیری کے وہ جوہر دکھائے جس سے دشمن حیران و پریشان حال رہا۔ ساری لڑائی میں دشمن پر ہیبت و خوف کے بادل چھائے رہے ۔ اور مظلوم انسانیت کو یہ سبق دیا کہ وقت کے یزیدوں کے سامنے کبھی نہ جُھکنے چاہیے

سانحہ کربلا دراصل تاریخِ انسانیت کا وہ عظیم سانحہ ہے کہ جس نے تاریخ کے اوراق میں امام حسینؓ کی شجاعت و صداقت کے ایک نہایت روشن باب کا اضافہ کرکے مسلمانوں کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے سامنے ڈٹ جانے کا شعور دیا۔ امام حسینؓ ؓنے ثابت کیا کہ اگر یقین محکم اور مقصد نیک ہو اور اللہ پر کامل یقین ہو تو رائے حق میں آنے والے مصائب و آلام اور باطل قوتوں کی دولت و طاقت کی کوئی اہمیت و حیثیت نہیں رہتی ۔یہی وجہ ہے کہ امام حسینؓ بن علیؓ کی قربانیوں کو تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔

حسینؓ بن علیؓ کی رگوں میں خون خاتم النبیین ﷺ ہے ۔آپ کے بازوں میں قوت علی حیدرؓ ہے ۔آپ جیسا کوئی شہسوار نہیں ۔ کیونکہ آپ نے دوش رسول ﷺ پر سواری کی ہوئی ہے۔آپ جیسا کوئی دلیر و بہادر نہیں ہے، اس لئے کہ آپ ﷺ نے انہیں اپنی شجاعت و صداقت بخشی تھی ، آپ مظہر شجاعت رسول ﷺ تھے ۔ کربلا میں یزید معلون حق پر نہیں تھا اور حسینؓ بن علی ؓ حق پر تھے جس کی وجہ سے اب ساری دنیا کہتی ہے کہ یزید معلون تھا اور حسینؓ بن علی ؓ ہیں

‎@HamxaSiddiqi

Leave a reply