190 ملین پاؤنڈ کیس،عمران کے گلے کا پھندہ،واضح ثبوت،بچنا ناممکن

0
164
imran bushra

تحریک انصاف اور عمران خان کے تابوت میں اگر کوئی کیل ثابت ہوگاتو وہ میری نظرمیں ایک سو نوے ملین پاونڈوالاکیس ہوگا ۔ یہ اتنا بڑا معاملہ کہ اس کے آگے پاناما اورسوئس کیسسز کچھ نہیں ۔بلکہ دونوں بہت چھوٹے ہیں ۔یا یہ کہہ لیں کچھ بھی نہیں ۔پر کیونکہ عمران خان کی میڈیااور سوشل میڈیا مینجمنٹ ہمیشہ سے اعلی رہی ہے ۔ اس لیے یہ معاملہ اتنا ہائی لائٹ نہیں ہوا ۔میں گزشتہ کئی ماہ سے اس کیس کی سماعت کو فالو کر رہاہوں ۔ مگر ہر باراسٹوری جورپورٹ ہوتی ہے کہ عمران خان نے ایک سو نوے ملین پاونڈ کی پیشی پر الیکڑک برش مانگ لیا۔ ڈیمانڈ کر دی جیو کےرپورٹرکوبلائیں ۔کبھی یہ اسٹوری لگی ہوتی ہے کہ ایکسرسائز کے لیے ڈمبل نہیں دیا گیا کبھی کان میں تکلیف تو کبھی قبض کی شکایت ۔ پراس کیس میں کیا ہوچکا ہےاور کیا ہو رہا ہے اس پر میڈیا کچھ نہیں بتا رہا تو میں اور میری ٹیم نے اس پر پوری ورکنگ کر لی ہےاور اس نتیجے پرپہنچ چکےہیں کہ یہ کیس عمران کے گلے کاپھندہ ہے۔اس کیس میں عمران کرپٹ بھی ثابت ہوتا ہےبلکہ میری نظر میں تو یہ ملک ریاض سےصاف صاف کیک بیکس لینے والا معاملہ ہے۔

۔اتنی بڑی کرپشن کااسکینڈل شریف خاندان یاپیپلزپارٹی کےساتھ جوڑا ہوتاتواب تک ان پارٹیوں پر پابندی لگ چکی ہوتی ۔ ان کی نسلوں کو تباہ وبربا دکرنےکےاحکامات جاری ہوچکے ہوتے ۔ ان کے تانے بانے امریکہ سمیت اسرائیل کیا خلائی مخلوق تک سے جوڑ دیے گئے ہوتے ۔ چینلز نان اسٹاٹ اس پر ٹرانسمیشن کر رہے ہوتے ۔ جبکہ سب اینکرز کے روز کا ایک ہی ٹاپک ہوتا ایک سو نوےملین پاونڈ ۔ مگر کیونکہ معاملہ عمران خان ہے اس لیے اسکو پہلے دن سے ڈاون پلے کیا گیا ۔ میں اتنا جانتاہوں کہ کوئی جج گھرسےمجبور نہ ہوا تو اس معاملے میں عمران خان لمبےاندر جائیں گے اور بڑی سزا ہوگی ۔ کیونکہ بڑے واضح اور ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ میری یہ بات لکھ کر رکھ لیں ۔

۔میں اتنا یقین سے جو کہہ رہا ہوں ۔اسی کی وجہ ہے سب سے پہلے اس کیس کا پس منظر بتا دیتا ہوں ۔ نیب کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں واقع چار سو اٹھاون کینال، چار مرلے اوراٹھاون مربع فٹ زمین عطیہ کی جس کے بدلے میں عمران خان نے ملک ریاض کو پچاس ارب روپے کا فائدہ پہنچایا ۔اور یہ معاملہ بالکل واضح ہے صاف ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے ۔ اس کی توانکوئری کی بھی ضرورت نہیں ۔ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ کیونکہ ادھر زمین ٹرانسفرکی گئی ادھر ریلیف دے دیاگیا ۔ بہرحال اکتوبر دوہزاربائیس میں نیب نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی ۔ نیب دستاویزات کے مطابق تین دسمبر دوہزارانیس کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں ملک ریاض کو برطانیہ سے ملنے والی پچاس ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی ۔۔این سی اے۔۔کی جانب سے ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔ ۔ جبکہ بطور وزیر اعظم عمران خان نے چھبیس دسمبر دوہزار انیس کو کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا ۔ جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف تین ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس انیس سو ننانوے کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت تین دسمبر دوہزار انیس کے کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔ نوٹس میں کہا گیا تھا کہ۔اختیارات کے ناجائز استعمال، مالی فائدہ اور مجرمانہ بدیانتی کے الزامات کی انکوائری کے دوران معلوم ہوا ہے کہ بطور کابینہ ممبر آپ نے تین دسمبر دوہزار انیس کو وزیراعظم آفس میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں شرکت کی جس میں آئٹم نمبر دوپر فیصلہ کیا۔ آئٹم نمبر دو کا عنوان تھا۔احمد علی ریاض، ان کے خاندان اور میسرز بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس کا انجماد اور پاکستان میں فنڈز کی منتقلی کا حکم نامہ۔ ایجنڈا آئٹم شہزاد اکبر نے پیش کیا تھا اور بریفنگ دینے کے ساتھ کابینہ سیکریٹری کو ہدایت کی تھی کہ ریکارڈ کو سیل کردیا جائے۔ نوٹس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض کو بھی طلب کیا گیا تھا۔آجکل بھی سنا ہے شہزاد اکبر ملک ریاض کے ہی ٹکڑوں پل رہاہے ۔

۔ سوال یہ ہےکہ این سی اے کی رقم ملک ریاض کو کیسے واپس ملی؟ دراصل دوہزار انیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ملک ریاض کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر ان تحقیقات کے نتیجے میں ملک ریاض نے ایک تصفیے کے تحت ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔ این سی اے نے بتایا تھا کہ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ایک سونوے ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔ تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے ایک فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو چار سو ساٹھ ارب روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کررہے ہیں۔ اس طرح نیب کے مطابق ایک ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔ اس حوالے سے دوہزارانیس میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں ور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا۔ ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات بھی رازداری میں رکھی گئی تھیں اور این سی اے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی عوام یا میڈیا کو یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاستِ پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا تھا۔

۔یہ سب کچھ مفت میں نہیں کیا گیا بدلے میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی نے پچاس ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کینال مالیت کی اراضی حاصل کی۔ ۔ ان کی دونمبر ی کا عالم دیکھیں کہ ساری زندگی عمران خان اور انکی جماعت اس چیز کا پرچار کر تی رہی ہے ۔ کہ ہم نے بیرون ملک سے پاکستان کا لوٹا پیسہ واپس لانا ہے اور جب باہرکے ممالک پاکستان کا لوٹا پیسہ خود واپس کرنے لگے تو انھوں نے کہا نہیں رہنےدیں ہمیں نہیں چاہیئے ۔ میں اور میری بیوی نے بدلے میں زمین لے لی ہے۔ ایسی اسکیم تو کبھی کسی اور جماعت کے ذہن میں نہیں آئی ۔ مطلب یہ واردات ڈال کر عمران خان کرپشن کرنے والوں میں سب سے اعلی درجے پر فائز ہوگئے ہیں ۔

۔ اسی وجہ سے عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، بہرحال جب یہ کیس چلا تو ستائیس فروری دوہزار چوبیس کو احتساب عدالت اسلام آباد نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف ایک سو نوے ملین پاؤنڈز ریفرنس میں فردجرم عائد کی ۔ اس سے قبل چھ جنوری دوہزار چوبیس کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایک سو نوے ملین پاؤنڈز کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں ملک ریاض سمیت ریفرنس کے چھ شریک ملزمان ان کے بیٹے علی ریاض ملک، فرحت شہزادی(وہی گوگی جس کو کپتان نے سب سے پہلے بھگایا اور کہا تھا کہ یہ معصوم ہے )، ضیاالاسلام، شہزاد اکبر، زلفی بخاری کو اشتہاری اور مفرور قرار دیا گیا۔ ملک ریاض نے حاضری سے استثنیٰ اور وڈیو لنک کے ذریعے حاضری سے متعلق دو الگ الگ درخواستیں بھی دائر کیں لیکن دائر دونوں درخواستوں کو عدالت نے خارج کردیا تھا۔ تئیس جنوری کو عمران خان نےضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس کے بعد چودہ مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت منظور کی ۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ نیب نے اعتراف کیا کہ تحقیقات مکمل ہیں، ملزم کو مزید قید میں رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، نیب پراسیکیوٹر نے خدشہ ظاہر کیا کہ بانی پی ٹی آئی سیاسی شخصیت ہیں۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نیب پراسیکیوٹر کے مطابق بانی پی ٹی آئی ریکارڈ ٹیمپرنگ یا ٹرائل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں، تاہم نیب کے ان تحفظات کے حوالے سے ریکارڈ پر کوئی جواز موجود نہیں ہے، لہٰذا عمران خان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کی جاتی ہے۔ اٹھائیس جون کو نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ درخواست میں نیب نے استدعا دی کہ سپریم کورٹ اسلام آبادہائی کورٹ کا چودہ مئی کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔پھر سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے عدالت کے سامنے اپنا بیان عمران خان اور بشریٰ بی بی کی موجودگی میں ریکارڈ کروایا ۔جس پر یاد ہو تو علی امین گنڈا پور اور یوتھیوں کو بہت مرچیں لگیں تھیں ۔ بلکہ اس دن جو پرویز خٹک نےبیان دیا وہ کہیں ڈسکس نہیں ہوا ۔ پرپرویز خٹک کی نیگٹوکردارسازی چھائی رہی ۔ پرویز خٹک کا اپنے بیان میں کہنا تھا شہزاد اکبر نے کابینہ کو بتایا تھا کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر باہر بھجوائی گئی بڑی رقم برطانیہ میں پکڑی گئی، شہزاد اکبر نے بتایا کہ پکڑی گئی رقم پاکستان کو واپس کی جائے گی۔ سابق وفاقی وزیر نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاملہ کابینہ کے ایجنڈے پر نہیں تھا، میٹنگ میں اضافی ایجنڈے کے طور پر سامنے لایا گیا، اضافی ایجنڈے پر مجھ سمیت دیگر کابینہ اراکین نے اعتراض کیا تھا، کابینہ میں رقم کے حوالے سے کاغذات بند لفافے میں پیش کیے گئے، اضافی ایجنڈے کی منظوری کابینہ سے لی گئی۔ پھر تیرہ جولائی کو عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے احتساب عدالت کے جج محمد علی وڑائچ کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے احتساب عدالت کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ شہزاد اکبر ایک دستخط شدہ نوٹ لے کر میرے پاس آئے، اس نوٹ پر شہزاد اکبر کے اپنے دستخط موجود تھے، نوٹ پر کابینہ سے منظوری لینے کا لکھا تھا۔ اعظم خان کے مطابق شہزاد اکبر نے بتایا کہ اس کانفیڈینشل ڈیڈ کو کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کرنے کی وزیراعظم نے ہدایت کی ہے، شہزاد اکبر کی اس بات پر فائل کیبنٹ سیکرٹری کو بھجوا دی تاکہ معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جا سکے، میں نے وہ فائل کیبنٹ سیکرٹری کے حوالے کر دی، میں نے کابینہ میٹنگ میں ان کیمرہ اجلاس ہونے کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔سابق پرنسپل سیکرٹری نے نیب کی جانب سے پیش کیے گئے بیان پر اپنے دستخط ہونے کی تصدیق کی ۔ اعظم خان کے بیان میں کہا گیا تھا کہ معاہدے پر ہونے والے دستخط کو میں نے پہچان لیا تھا، معاہدے کے ساتھ ایک خفیہ تحریر موجود تھی جس سے متعلق بتایا نہیں گیا۔ پھر سابق وزیر مملکت زبیدہ جلال نے احتساب عدالت میں دیے گئے بیان میں کہا کہ شہزاد اکبر کی جانب سےایک بند لفافہ اضافی ایجنڈے کے طور پیش کیا گیا، اضافی ایجنڈا کابینہ میں پیش کرنے سے قبل ضروری طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، ضروری تھا کہ اضافی ایجنڈا کابینہ میں پیش کرنےسےقبل ممبران کو بریفنگ دی جاتی ۔ شہزاد اکبر نے زور دیا کہ معاملہ حساس ہے اسےفوری طور پر منظور کیا جائے۔ اضافی ایجنڈےکو بغیر بریفنگ پیش کرنے پر مجھ سمیت دیگر ممبران نے اعتراض کیا اور کہا کہ منظوری سے قبل اس پر بحث ہونی چاہیے، اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نےبھی کہا تھا کہ اس اضافی ایجنڈے کو منظور کرلیں، صرف اس منطق پر مجھ سمیت کابینہ ممبران نے اس اضافی ایجنڈے کی منظوری دی۔

۔ آج تک کی موجودہ صورتحال میں اس ریفرنس میں پینتیس گواہان پر جرح مکمل ہوچکی ہے۔اب چند روز قبل اس ریفرنس میں تفتیشی افسر ڈپٹی ڈائریکٹر نیب میاں عمر ندیم کا بیان سامنے آیا۔میاں عمر ندیم نے بیان دیا ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی کے کنٹری منیجر عثمان احمد کو شہزاد اکبر کی ہدایت پر خفیہ خطوط لکھے گئے، مجرمانہ سرگرمیوں کی آمدنی منجمد کرنے کیلئے نیشنل کرائم ایجنسی نے فریزنگ آرڈر حاصل کیے۔ تفتیشی افسر نے کہا ہے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے چار سو اٹھاون کینال چار مرلے اٹھاون مربع فٹ زمین خریدی، خریدی گئی زمین ملزم ذلفی بخاری کے ذریعے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کو منتقل کی گئی، اراضی منتقلی کے بعد عمران خان سے ذلفی بخاری، شہزاد اکبر اور پراپرٹی ٹائیکون ملے۔ انہوں نے بیان دیا ہے کہ گیارہ جولائی دو ہزارانیس کو رقم پاکستان کی ملکیت ہونے پر عمران خان کو بدنیتی پر مبنی نوٹ لکھا گیا، بدنیتی پر مبنی نوٹ تین دسمبر دوہزار انیس کو کابینہ اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا، بدنیتی پر مبنی نوٹ بند لفافے میں کابینہ میں پیش کر کے اس کی منظوری پر اصرار کیا گیا۔ تفتیشی افسر کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ پر ضیاء المصطفیٰ نسیم نے بطور گواہ دستخط کیے، اس پر وزارت خزانہ، وزارت خارجہ اور وزارت قانون کی رائے نہیں لی گئی، ٹرسٹ ڈیڈ میں ترمیم کر کے عمران خان ، بشریٰ بی بی اور ذلفی بخاری کو شامل کیا گیا۔ پھر بشریٰ بی بی نے چوبیس مارچ دوہزار اکیس کو عطیہ اقرار نامہ پر دستخط بھی کیے، القادر ٹرسٹ کی آڑ میں دو سو چالیس کینال اراضی فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی گئی، مگرعمران خان اور بشریٰ بی بی اراضی کی فروخت سے متعلق ثبوت دینے میں ناکام رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو ثبوت دینے کیلئے متعدد نوٹسز کیے لیکن تعاون نہیں کیا گیا، ملزمان ریاست پاکستان کے لیے فنڈز کی منتقلی کے ثبوت پیش کرنے میں بھی مکمل ناکام رہے۔ جبکہ القادر ٹرسٹ پراپرٹی میں فرح شہزادی نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے بطور فرنٹ پرسن کام کیا۔ اب سمجھ آیا عمران خان کو یہ گوگی معصوم کیوں لگتی تھی۔

۔ یہ سب کچھ شہزاد اکبر اپنے ایماء پر تو کر نہیں سکتےتھے ۔ یقینا عمران خان کی آشیر آباد انکو حاصل تھی ۔ اسی لیے تو ان کو ، زلفی بخاری اورفرح گوگی کو ملک سے ایسے فرار کروایا جیسے مکھن سے بال ۔ کیونکہ پتہ تھا کہ یہ دونوں ان کی حکومت جانےکےبعد روکے تو ضرور گرفت میں آئیں گے اور یہ گرفت میں آئےتو پھر قانون کا ہاتھ عمران خان سمیت بشری بی بی کی گردن تک ضرور پہنچے گا ۔

Leave a reply