چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہو گئے ہیں

وکیل حامد خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں موجود تھے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انتظامیہ کوعوام کیلئے مشکلات پیدا کرنے سے روکنے کا حکم دے دیا،عدالت نے کہا کہ رجسٹرار ہائیکورٹ ڈپٹی کمشنر اور آئی جی پولیس کو فوری ہدایات جاری کریں،یقینی بنائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے دوران عوام کیلئے مزید مشکلات پیدا نہ ہوں، ہائیکورٹ کی اطراف میں کاروباری مراکز کو بند نہ کیا جائے،

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل تھے سابق وزیراعظم عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں موجود رہے ،عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر موجود تھے اور انہوں نے دلائل کا آغاز کر دیا،کہا ہم نے بڑے احترام کیساتھ اپنے جواب میں گذارشات جمع کرا دی ہیں، حمد خان نے عمران خان کے تحریری جواب کے اہم نکات عدالت میں پڑھے،عدالت نے عمران خان کے وکیل حامد خان کے علاوہ دیگر وکلا کو بیٹھنے کی ہدایت کردی

حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیسز کے بعض حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف کریمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی،دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا،آپ کو یہ چیز سمجھائی تھی کہ یہ معاملہ کریمنل توہین عدالت کا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا جواب ہم نے پڑھ لیا ہے، یہ فائنل جواب ہے، ہم نے سپریم کورٹ کے 2 فیصلوں کا حوالہ دیا، ہم ان فیصلوں کے پابند ہیں دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے کیسز توہین عدالت کی کرمنل پروسیڈنگ نہیں تھیں،توہین عدالت کی کرمنل پروسیڈنگ زیادہ سنگین معاملہ ہے ،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حامد خان ایڈووکیٹ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کر دی، جس کے بعد عمران خان کے وکیل حامد خان نے سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالت میں پڑھا،.وکیل حامد خان نے کہا کہ عبوری جواب میں جن دو مقدمات کا حوالہ دیا تھا دونوں میں فرق واضح کرنے کی کوشش کی ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو سوچ کر جواب دینے کی ہدایت کی تھی ،کریمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے،اس کیس سے ماتحت عدلیہ کا احترام اور مورال جوڑا ہے ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی لیڈر کے اس قسم کے بیانات سے ان کے فالورز جج کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں، اپنے عمل کو درست گردان رہے ہیں، سابق وزیراعظم عمران خان قانون سے لاعلمی کا سہارا لے رہے ہیں،کیا عمران خان کا جواب ان دوعدالتی فیصلوں کے مطابق ہے؟،اس عدالت کو کوئی مرعوب نہیں کرسکتا،ہم نے قانون کے مطابق جانا ہے،پچھلی مرتبہ آپ کو سمجھایا تھا، جواب سے لگتا ہے کہ سنگینی کا احساس نہیں، اگر اس خاتون جج کے ساتھ کچھ ہوجاتا تو کون ذمہ دار ہوتا؟ گزشتہ سماعت پر کیس کی سنگینی اور حساسیت کا بتایا گیا تھا لیکن آپ کو احساس نہیں ہوا ،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اسکا طریقہ کار قانون میں موجود ہے،توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بہت اہم ہے، سوسائٹی اتنی پولرائز ہے کہ فالورز مخالفین کی پبلک مقامات پر تذلیل کرتے ہیں، اگر یہی کام وہ اس جج کے ساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا یہ ٹون کسی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے؟ عدلیہ کی آزادی اس عدالت کی اولین ترجیح ہے، ہم نے وکلا تحریک سے کچھ بھی نہیں سیکھا، کیا آپکا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق ہے؟آپ نے اپنے جواب میں اپنے عمل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے، وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے جواز نہیں وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی سابق وزیراعظم قانون کو نظرانداز کر سکتا ہے؟ کیا سابق وزیراعظم یہ جواز پیش کر سکتا ہے کہ اسے قانون کا علم نہیں تھا؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وکیل حامد خان کو شوکاز لیٹر کا پیرا 5 پڑھنے کی ہدایت کر دی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے جواب میں بھی لکھا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا مبینہ کا لفظ استعمال نہیں کیا کیا فیصلے اب جلسوں میں ہونگے یا عدالت میں ؟ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ شوکاز میں کریمنل نوٹس کا واضح لکھا ہے، وکیل حامد خان نے ضمنی جواب عدالت کو پڑھ کر سنایا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ جواب میں جسٹیفائی کررہے ہیں کہ ٹارچر ہوا ہے ستر سال میں جو ہوا اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت بہت ہی محتاط رہتی ہے،یہاں فرق ہے سپریم کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز کا وہ مشکل حالات میں کام کرتے ہیں، آپ نے لکھا کہ اگر خاتون جج کے جذبات مجروح ہوئے تو ہم شرمندہ ہیں ،ججزکے کوئی احساسات نہیں ہوتے وہ صرف عدلیہ کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں ،حامد خان نے کہا کہ ہمارے لیے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل عزت ہیں،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماتحت عدالت کے ججز ہم اور سپریم کورٹ کے ججز سے زیادہ اہم ہیں، خاتون جج لاہور جا رہی ہونگی موٹروے پر کھڑے ہوئے کوئی واقعہ ہو سکتا ہے،کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو؟ عدالت آپ کو سمجھا رہی ہے، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا ایک رہنما ایک جج کے خلاف قانونی کارروائی کی بات عوامی جلسے میں کرسکتا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بیان نے خاتون جج کے لیے رسکی حالات پیدا کیے، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ خاتون جج کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے،

جسٹس بابر ستار کے سوالات پر عمران خان نے شعیب شاہین کو ہدایت کی،اور کہا کہ میں روسڑم پر آنا چاہتا ہوں ،حامد خان سے پوچھو میں روسٹرم پر آنا چاہتا ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ جواز دے کر چاہ رہے ہیں کہ کارروائی آگے بڑھائی جائے یہ رسکی بات ہے ،حامد خان نے کہا کہ عمران خان پرسوں کی تقریر پر وضاحت کیلئے روسٹرم پر آنا چاہتے ہیں،عمران خان کے مطابق پرسوں کی جس تقریر کا حوالہ دیا گیا وہ مس رپورٹ ہوا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہم تقریر یہاں چلا کر دیکھ لیں گے،جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان جلسے میں خاتون جج کو دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں تمہیں خود پر شرم آنی چاہیے ،بطور لیڈرآپ کے الفاظ کے اثرات ہیں،آپ ان اثرات کو جانتےہوئے بھی جلسوں میں ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں اگر درخواست گزار کو 5رکنی بینچ کا فیصلہ پسند نہ آئے تو جلسے میں اس کے خلاف بات کریں گے، اس لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف کیا جلسے میں کہا جائے گا کہ آپ کے خلاف ایکشن لیں گے، جسٹس بابر ستار کے ریمارکس پر دوران سماعت عمران خان نفی میں سر ہلاتے رہے ، جسٹس بابر ستار نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے موکل کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بتائیں کہ مدینہ منورہ میں کیا ہوا تھا؟ آپکا جواب صرف ایک جسٹی فکیشن ہے اور کچھ نہیں،رسول اللہ ﷺاور فتح مکہ سے ہمیں سیکھنا چاہیے، ایک خاتون ڈسٹرکٹ جج کے بارے میں کیسے الفاظ استعمال کیے گئے،عدالت نے حامد خان کو ہدایت کی کہ آپ اپنے دلائل مکمل کریں،

جستس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ شہباز گل کی کسی میڈیکل رپورٹ میں ان پر تشدد ثابت نہیں ہوا،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے جواب میں تشدد کو مبینہ ہی لکھ دیتے، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ شہباز گل کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست پر میڈیکل بورڈ بنایا گیا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا فیصلے اب پرسیپشنز کی بنیاد پر ہونگے ،

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شہباز گِل پر تشدد سے متعلق ایک بات کرنا چاہتا ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گِل معاملے پر نہ جائیں اس طرف جا کر کیس کو مزید مشکل بنا دینگے،ہم نے آپکو قائم مقام چیف جسٹس کا آرڈر آپکو پڑھ کر سنایا، وہ کیس اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا، ھامد خان نے کہا کہ عمران خان نے جواب میں لکھا ہے کہ انہیں اسکا علم نہیں تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس میں نہ جائیں اس آرڈر شیٹ میں آپکی پوری لیگل ٹیم کا نام لکھا ہے، سب موجود تھے، ہم نے بہت سی چیزوں کو چھوڑا تھا لیکن آپ خود انکا حوالہ دے رہے ہیں

عمران خان نے دوسری بار دوبارہ روسٹرم پر بات کرنے کی اجازت مانگ لی،حامد خان نے کہا کہ عدالت کہتی ہے کہ ججز کے جذبات نہیں ہوتے لیکن ہم پھر بھی انسان ہیں،عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا کیونکہ دھمکی دینا انکا مقصد نہیں تھا، عمران خان خواتین کے حقوق کیلئے ہمیشہ کھڑے ہوئے،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خاتون کی بات نہیں، ماتحت عدالت کی ایک جج کی بات ہے،حامد خان نے کہا کہ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک خاتون جج سے متعلق یہ بات کی گئی، جسٹس بابر ستار نے وکیل سے سوال کیا کہ کون بنا رہا ہے پرسیپشن بتائیں ؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا سیاسی جماعتوں نے کارکنان کو کبھی سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کرنے سے روکا ،عدلیہ آج سب سے زیادہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہے،حامد خان نے فردوس عاشق اعوان کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس پر نہ جائیے گا یہ فیصلہ آپکے خلاف جائے گا فردوس عاشق اعوان کیس کا فیصلہ تب دیا گیا جب وہ وزیراعظم کی معاون خصوصی تھیں، عدالت نے فیصلے میں لکھا تھا کہ فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کی لیکن انہیں علم نہیں تھا،اب اس فیصلے کے بعد آپ یہ دلیل تو نہیں دے سکتے کہ آپکو پتہ نہیں تھا،جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے جواب کے پیرا 4 میں لکھا کہ آپ کو علم تھا کہ یہ ایک زیر التوا مقدمہ ہے جانتے ہوئے بھی کیا ایسی بات کی جاسکتی تھی،جواب میں یہ بھی لکھا گیا کہ عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر کی جائے گی، کیا عمران خان اپنے بیان سے اس عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے تھے؟

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب عمران خان کو معلوم تھا کہ اپیل دائر ہو گی تو کیا ایسا کہنا درست تھا، کیا ایسا کہنا اسلام آباد ہائیکورٹ پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں تھی؟ طلال اور دانیال عزیر کیس میں عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کی کوشش کی گئی تھی پھر بھی سزا ہوئی ان کیسز میں تو ہم نے نوٹس بھی نہیں لیا تھا ہمیں عدالت یا ججز کو اسکینڈلائز کرنے سے فرق نہیں پڑتا،نہال ہاشمی کیس کی سنگینی کم تھی لیکن سپریم کورٹ نے پھر بھی انہیں سزا دی، ہم توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں تو روزانہ وہی کرتے رہیں، ہم نہیں کرینگے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کرمنل توہین عدالت ہے جس پر دنیا بھرمیں نوٹس لیا جاتا ہے ہم بھی لیں گے،اس توہین عدالت سے عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد اٹھنے کا خدشہ ہوتا ہے، جسٹس بابر ستار نے فوادچودھری کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کی،وہ نہال ہاشمی کیس سے زیادہ سنگین توہین عدالت ہے لیکن ہم نوٹس نہیں لیں گے، آپکو معلوم ہے وہ کیا کہتے ہیں؟ کیا کیا چیزیں ریکارڈ پر لائی گئی ہیں، حامد خان نے کہا کہ جی مجھے اس حوالے سے معلوم ہے،ہماری گزارش ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے، حامد خان نے عدالت میں کہا کہ ہم نے ضمنی جواب میں بار بار regret کا استعمال کیا، ہم نے کہا جو کہا گیا غیرارادی طور پر تھا، توہین عدالت کا کوئی ارادہ نہیں، ہم کبھی بھی توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتے، ہم آئندہ کے لیے عدلیہ سے متعلق محتاط رہیں گے۔عمران خان وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ محتاط رہیں گے، عمران خان کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہوئے، اٹارنی جنرل اشتراوصاف کے دلائل شروع ہو گئے ہیں

اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ توہین کرنے والے کی نیت اور مقصد بہت اہم ہوتا ہے،2014 میں بھی عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس چلایا گیا تھا،ایسے ہی الزامات تھے، ایسا ہی طریقہ کار تھا لیکن معاف کردیا گیا تھا، عمران خان نے اپنے جواب میں بیان حلفی نہیں دیا، عمران خان کے بیان حلفی کے بغیر جواب کی کوئی حیثیت نہیں سپریم کورٹ نے معاف کیا یہ سمجھتے ہیں بار بار وہی کریں بار بار معافی ہو،عمران خان کو اس بار صرف نوٹس نہیں شوکاز نوٹس ہوا تھا شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ آجانا چاہیے تھا،میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے،اُس تقریر کے بعد والی تقریر کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس ہے،میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا،عمران خان نے دوبارہ خاتون جج کا حوالہ دیا،

منیر اے ملک نے عدالت میں کہا کہ اسلم بیگ کیس میں ایک زیر التواکیس میں سپریم کورٹ کو پیغام بھیجنے پر کارروائی ہوئی توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے،توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں،عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائیکورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتی،میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر تقریر کااثر پڑا،مجھے لگتا ہے جو بیان دیا گیا وہ جوش خطابت میں غلطی ہوگئی ،منیر اے ملک نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر دی اور کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے،ایک معافی پر یہ کارروائی ختم ہوتی ہے، دوسرا کنڈکٹ پر، یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کیلئے احترام کا اظہار کیا گیا، اسلم بیگ نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ سے معافی بھی نہیں مانگی تھی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلم بیگ کون تھے؟ چلیں آگے چلیں،کیا آپ یقین کریں گے کہ ماتحت عدلیہ کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ جیسا سلوک ہوگا آخری سماعت پر بھی کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے،

عدالتی معاون مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون جج کا نام لیا گیا، شیم کیا گیا، کیا آپ چاہتے ہیں اس کو صاف کیا جائے،کیا آپ سمجھتے ہیں عمران خان کا جواب توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کیلئے کافی ہے؟ منیر اے ملک نے کہا کہ میرا خیال ہےعدالت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارروائی کو ختم کرنا چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فری سیپچ کے حامی ملک میں کیا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاونٹ بلاک ہونا درست تھا؟ ایک رہنما کا معاشرے پر ایک اثر ہوتا ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ عوامی اجتماع سے جوش و خطابت میں جو کہا گیا اس سے شاید جوڈیشل ایڈمنسٹریشن متاثر ہو،پبلک انٹرسٹ صرف ایڈمنسٹریشن آف جوڈیشری میں ہے،آپ نے خود کہا کہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی قدغن نہیں ہونا چاہیے، مخدوم علی خان نے سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا عدلیہ مخالف تقریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ ایک جلسے میں کسی لیڈر کی کہی بات سے عدالتی کارروائی متاثر نہیں ہوسکتی پبلک انٹرسٹ صرف ایڈمنسٹریشن آف جوڈیشری میں ہے،خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی، اسلام آباد میں سیاسی معاملات زیادہ ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر عمران خان کو ایک موقع دیا تھا ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کو عمران خان کے کنڈکٹ میں وہ بات نظر نہیں آ رہی، جس کی ہم امید کر رہے تھے عمران خان کا جواب وہ نہیں،سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں ریمارکس ہوتے تو جواب ایسا نہ ہوتا، مخدوم صاحب آپ کے تمام دلائل درست ہیں، جواب سے کیا آپ کو لگتا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا ؟یہی الفاظ سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں کہے ہوتے تو آپ اس جواب سے مطمئن ہوتے؟ مخدوم صاحب آپ کے تمام دلائل سے متفق ہیں،عمران خان کے جواب میں احساس کا پہلو نظر نہیں آ رہا، ہم توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتے،ہم نے بہت سے معاملات میں برداشت کا مظاہرہ کیا اور کارروائی نہیں کی، مخدوم علی خان نے کہا کہ یہاں اس عدالت میں آئے کیسز سیاست سے قریب ترہی ہوتے ہیں

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا سے گھبرانا نہیں چاہیے، سوشل میڈیا کی کوئی ساکھ نہیں ہے، اس شخص (عمران خان ) نے معاملے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھا، عمران خان کے جواب میں احساس کا پہلو نظر نہیں آ رہا،ہم توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتے،ہم نے بہت سے معاملات میں برداشت کا مظاہرہ کیا اور کارروائی نہیں کی،مخدوم صاحب ایک بات ہم آپ کو بالکل واضح کہنا چاہتے ہیں،توہین عدالت کارروائی کے بعد جو کنڈکٹ ہونا چائیے تھا وہ نہیں نظر آیا، اس طرح کے کیسز میں غیر مشروط معافی مانگی جاتی ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ میری رائے ہوگی جمع شدہ جواب کو منظور کر کے نوٹس ڈسچارج کیا جائے،دوسرا یہ توہین عدالت مرتکب ہونے والے کو بیان حلفی جمع کرنے کا موقع دیا جائے،میرے خیال میں معافی کا لفظ ضروری نہیں ،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں دو مختلف کیسز کے فیصلوں کے حوالے دے کر کنفیوز نہ کریں مخدوم علی خان نے کہا کہ اس کیس میں پچھتاوے کا اظہار کیا جا چکا ہے،عدالت عمران خان کو مزید موقع دے سکتی ہے، عمران خان اپنے مفصل جواب میں افسوس اور معذرت کے الفاظ استعمال کریں، عدالت نے کہا کہ کیا کسی کی انا ماتحت عدلیہ کے وقار سے زیادہ اہم ہے؟ مخدوم علی خان کی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا، دلائل مکمل کر لئے گئے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے تمام وکلا کو سنا ہم پانچ منٹ میں آتے ہیں، عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا

تیسرے عدالتی معاون پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے دلائل دیئے، اختر حسین نے کہا کہ عمران خان کو شوکاز نوٹس درست طور پر جاری کیا گیا عمران خان کی جانب سے غیر مشروط طور پر معافی نہیں مانگی گئی اگر غیر مشروط معافی مانگی جاتی تو میں بھی کہتا ختم کر دیں،

سماعت کے آخر میں عمران خان کو بات کرنے کی اجازت نہ دی گئی . عمران خان نے کھڑے ہو کر استدعا کی کہ جسٹس صاحب موقف دینا چاہتا ہوں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے وکیل کو سن چکے ہیں،

عمران خان نے عدالت پیشی کے موقع پر کہا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ آج کلبھوشن یادیو عدالت آ رہا تھا،مجھے سمجھ نہیں آ رہی اتنا خوف کیوں ہے رات میچ دیکھنے کیلئے وقت نہیں تھا، مجھے تو آج آتے آتے بھی 15 منٹ لگ گئے، بعد میں میڈیا سے بات کرونگا کہیں کوئی غلط خبر ہی نہ چل جائے جیل میں جا کر زیادہ خطرناک ہوجاوں گا صحافی کی جانب سے عمران خان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ عدالت میں ججز کے سامنے معافی مانگیں گے جس پرعمران خان کا کا کہنا تھا آپ سے این او سی لوں گا آپ کا کافی تجربہ ہے

قبل ازیں سابق وفاقی وزیر فواد چودھری اور شہزاد وسیم کو ناکے پر روک لیا گیا ،پولیس کا کہنا ہے کہ جن کے پاسز ہیں وہی اندر جائیں گے ،کمرہ عدالت کے باہر واک تھرو گیٹ اور اسکرین نصب کی گئی ،عدالت کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر 2 ایس پیز سمیت 778 افسران اور اہلکار تعینات کیے گئے ہیں ,تحریک انصاف کے رہنما و کارکنان بھی عدالت کے باہر موجود ہیں ،وزیر داخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر کو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ جانے سے روک دیا گیا ،ہاشم ڈوگر نے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں پنجاب کا وزیر داخلہ ہوں،

واضح رہے کہ عمران خان نے خاتون جوڈیشل مجسٹریٹ کو جلسے میں دھمکیاں دینے کے معاملے میں گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں شوکاز نوٹس کے جواب میں 19 صفحات پر مشتمل نیا تحریری ضمنی جواب جمع کرایا تھا اس جواب میں عمران خان نے خاتون جج سے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کیا تھا خاتون جج زیبا چوہدری سے متعلق کہے گئے الفاظ پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے افسوس کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ غیر ارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے انہوں نے دھمکی دینے کے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی اجتماع میں کہے گئے اپنے الفاظ کے ساتھ نہیں کھڑا ہوں عدالت میری اس وضاحت کو کافی سمجھتے ہوئے میرے خلاف دائر کیس ختم کرے

شوکت ترین ، تیمور جھگڑا ،محسن لغاری کی پاکستان کے خلاف سازش بے نقاب،آڈیو سامنے آ گئی

فوج اور قوم کے درمیان خلیج پیدا کرنا ملک دشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے،پرویز الہیٰ

سپریم کورٹ نے دیا پی ٹی آئی کو جھٹکا،فواد چودھری کو بولنے سے بھی روک دیا

بیانیہ پٹ گیا، عمران خان کا پول کھلنے والا ہے ،آئی ایم ایف ڈیل، انجام کیا ہو گا؟

سینئر قیادت پرہتک آمیز،انتہائی غیرضروری بیان پرپاک آرمی میں شدید غم وغصہ ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر

Shares: