عمران خان کو سزا: آگے کیا ہوگا؟

سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیم 203 کے تحت عدالت نے باضابطہ فرد جرم عائد کی ،اسکے بعد سیکشن 3 سیکشن سی اور 9 کے تحت بیان کردہ الزامات کے نتیجے میں دونوں کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔

عمران خان کے سرکردہ وکلاء کو آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ ملنے کے ساتھ قانونی کارروائی تنازعات کی زد میں آ گئی تھی۔ عدالتی سماعتوں سے عمران خان کے وکلاء کی غیر حاضری کی وجہ سے عدالتی کاروائی کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری وکلاء کی تقرری کی گئی۔ بیرسٹر گوہر نے سزا ملنے کے بعد عدالت کے باہر بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی قانونی ٹیم کو گواہوں سے جرح کرنے کا موقع نہیں دیا گیا،تیزی سے سماعت اور گواہوں کو نمٹانے سے مقدمے کی شفافیت کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

سائفر کیس میں عمران خان کے ملوث ہونے کا لنک حوالہ کے لیے ذیل میں دیا گیا ہے:

حالیہ پیش رفت کے اثرات آئندہ انتخابات تک پھیلے ہوئے ہیں، آزاد امیدوار جنہیں تحریک انصاف نے نامزد کر رکھا ہے، انکا الیکشن کے بعد الگ ہونے کا امکان ہے، 2024 کے انتخابات میں تحریک انصاف کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ آزاد اراکین کو انتخابی نتائج کے تین دن کے اندر کسی پارٹی میں شامل ہونا ہو گا، اور پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے نزدیک انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم ہونے کے بعد انتخابی نشان اور پارلیمانی پارٹی کی حیثیت کھو چکی ہے.

توشہ خانہ کیس میں بھی عمران خان کی قانونی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان، اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس میں 14 سال قید کی سزا سنادی گئی،بشریٰ بی بی کو بھی گرفتار کر لیا گیا،۔ دونوں کو 10 سال تک کسی بھی عوامی عہدے پر فائز رہنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

ایک حالیہ پیش رفت میں، تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا تاکہ عمران خان سے ان کے سیاسی فیصلوں،بشمول قومی اسمبلی سے علیحدگی، جنرل باجوہ اور فیض کے خلاف الزامات سمیت دیگر امور کے بارے میں بات کی جا سکے، یہ وہ الزام تھا جوعمران خان نے پہلے امریکہ کو اپنی پارٹی کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد لگایا تھا، عمران خان کی جانب سے سیاسی فائدے کے لیے سائفر کا مبینہ استعمال کیاگیا، جیسا کہ اعظم خان کے ساتھ بات چیت میں انکشاف ہوا، ان کی پوزیشن کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ ان کے قومی اسمبلی سے نکلنے اور صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ ارشادبھٹی کا کہنا ہے کہ خان کے جوابات سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ (کامران شاہد شو)

لنک

جیسے جیسے قانونی کارروائی شروع ہوئی.سیاسی تناؤ بڑھتا جاتا ہے، عمران خان اور پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہو گا، جس کے اثرات پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر پڑتے ہیں۔

Shares: