عمران خان سیاستدان بن گئے، جمہوریت کا دعویدار لیکن سیاسی آمر سے کم نہیں، حکومت ملی تو پاکستان کی اپوزیشن سب سے بڑا مسئلہ تھی جو اب حکومت میں آ چکی

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ایک ہی روز میں 33 بل منظور کروانا،اور اپوزیشن کو مکمل نظر انداز کرنا یہ عمران خان کی سیاسی آمریت کی ہی نشانی ہے

سب خواب چکنا چور تب ہوئے جب اسوقت کی اپوزیشن نے حکومت میں آتے ہی عمران خان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور ای وی ایم سمیت اہم بل کی ترامیم واپس لے لیں

عمران خان وزیراعظم بنے تو اقتدار میں آ کر انہوں نے اپوزیشن کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھا، پاکستان کی معیشت کی تباہی انہیں نظر نہ آئی البتہ بڑے بڑے دعوے کر کے اقتدار میں آ کر ان پر زیرو فیصد عمل کیا اور یہی وجہ انکے اقتدار سے نکالے جانے کی بنی، کیونکہ عمران خان جو بولتے ہیں وہ کرتے نہیں، اور جو کرتے ہیں وہ بولتے ہیں، اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان کے دعوے اور وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس پر عمل میں آسمان زمین کا فرق ہے،وہ عمران خان جو حکومت میں آنے سے پہلے بات کرتا تھا کرسی ملتے یکدم ہی اسکے عمل میں تبدیلی آ گئی، ریاست مدینہ کا نام لے کر من مانی کی گئی، کرپشن کے ریکارڈ بنائے گئے، دھوکہ دہی کی گئی اور بار بار نام ریاست مدینہ کا ہی لیا گیا

عمران خان حکومت میں رہتے ہوئے اپنی پسند کی قانون سازی کرتے رہے اور کرواتے رہے، اپوزیشن پر الزامات، گرفتاریاں،جیلوں میں ڈالنا، پھر طیبہ کے ذریعے چیئرمین نیب کو بلیک میل کر کے اپوزیشن پر بے جا مقدمات بنوانا، فرح گوگی کے ذریعے کرپشن یہ کپتان کے محبوب مشغلے رہے، کپتان کی خواہش تھی کہ اپوزیشن کسی نہ کسی طرح جیلوں میں ہی رہے اور وہ اپنی مرضی کی قانون سازی کرتے رہیں اور انہوں نے کی بھی سہی ،پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر اپوزیشن کی غیر موجودگی میں یا انکی مشاورت کے بغیر بل پاس کروائے گئے تو کبھی مرضی کے‌صدارتی آرڈیننس لائے گئے لیکن عمران خان شاید یہ بھول گئے تھے کہ سدا اقتدار انکا نہیں بلکہ حکومت نے جانا بھی ہے اور رخصتی کے بعد انکی جانب سے کی جانے والی قانون سازی کو بلڈوز بھی کیا جا سکتا ہے

17 نومبر 2021 وہ دن ہے جب عمران خان کی حکومت نے ایک دو نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے 33 بل پاس کروائے، اپوزیشن احتجاج کرتی رہی لیکن عمران خان جو ہمیشہ اپنی ہی کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اپوزیشن کی خواہشات کے برعکس ایک ہی روز میں 33 بل پاس کروا کر ایک ریکارڈ بنایا ، اس قانون سازی کے لئے ایم کیو ایم نے حکومت کو بلیک میل بھی کیا تھا اور بعد میں پھر ایم کیو ایم عدم اعتماد کے وقت ساتھ بھی چھوڑ گئی تھی،33 بل جو پاس کئے گئے تھے ان میں سے ای وی ایم کا بل سے زیادہ اہم تھا اور تحریک انصاف اسکو بڑی کامیابی سمجھ رہی تھی،۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول زرداری بھی ایوان میں موجود تھے ، انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی مخالفت میں تقریر کی ۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمانی اصول و ضوابط 1973 سے متعلق سیکشن 10 اسپیکر قومی اسمبلی کو پڑھ کر سنادیا کہا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اگر کوئی قانون منظور کروانا ہو تو اس کیلئے 222 ووٹ کی ضرورت ہے ورنہ وہ قانون منظور نہیں ہوتا تا ہم اسوقت کے سپیکر نے انکی نہ سنی اور بل پاس کرتے گئے

عمران خان کیخلاف عدم اعتماد آئی، کامیاب ہوئی اور عمران خان سابق وزیراعظم ہو گئے اسکے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان حکومت کے اتحادی بنے، ایم کیو ایم بھی دوبارہ اتحادی حکومت کا حصہ بن گئی،ایسے میں عمران خان نے جو بل ای وی ایم کے حوالہ سے پاس کیا تھا موجودہ حکومت نے اس میں ترمیم کر لی اور اب الیکشن ای وی ایم پر نہیں ہوں گے کیونکہ الیکشن کمیشن کو بھی ای وی ایم پر تحفظات تھے،26 مئی کو رواں برس ہونے والے اجلاس میں ای وی ایم ،اوورسیز ووٹنگ کے حوالے سے سابق حکومت کی ترامیم ختم ہوئیں، اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے اسمبلی میں سب کو مبارکباد دی، تحریک انصاف تو اسمبلی میں موجود ہی نہیں کیونکہ انہوں نے استعفوں کا ڈھونگ رچایا ہوا ہے اور تنخواہیں پھر بھی لے رہے ہیں، ای وی ایم کے بارے میں کہا جا رہا ہےکہ جن ممالک نے ای وی ایم کا استعمال کیا وہ بھی اسکو روک چکے ہیں، کیونکہ ای وی ایم سے شفاف ووٹنگ کسی صورت نہیں ہو سکتی، ای وی ایم سسٹم کو ہیک کیا جا سکتا ہے اور کچھ بھی نتائج آخر میں دیئے جا سکتے ہیں

تحریر:ریحانہ

Shares: