رات دو بجے جب مبشر لقمان نے ماچس کی تیلیاں گننا شروع کیں تو کیا ہوا؟ عمران کی سیاست اور عوام کی ذہنی عیاشی ، سنیئے مبشر لقمان کی زبانی

0
51

رات دو بجے جب مبشر لقمان نے ماچس کی تیلیاں گننا شروع کیں تو کیا ہوا؟ عمران کی سیاست اور عوام کی ذہنی عیاشی ، سنیئے مبشر لقمان کی زبانی

باغی ٹی وی :سینئر اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔
آپ نے کبھی سوچا کہ
یہ کیوں بری بلا ہے۔ اس حوالے سے ہم بہت سی کہانیاں سنتے آ رہے ہیں جن میں سے ایک کتے کی کہانی بہت مشہور ہے جو نہر کے کنارے اپنے سائے کو دیکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ یہ کوئی اور کتا ہے اور اس کے منہ میں ہڈی ہے اور اسے حاصل کرنےکے لیئے جیسے ہی بھونکتا ہے اپنی ہڈی سے بھی ہاتھ گنوا بیٹھتا ہے۔
کیا پاکستانی قوم بھی لالچی ہے اور کیا اس کے ساتھ بھی وہی ہوا ہے جو اوپر کی کہانی میں ایک کتے کے ساتھ ہوا ہے۔؟
بات تھوڑی سے سخت ہو گئی ہے لیکن آپ کو سمجھانے کے لیئے یہ بہت ضروری ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ لالچی لوگ ہمیشہ دھوکہ کھاتے ہیں۔انہیں جب سنہری خواب دیکھائے جاتے ہیں تو وہ بڑی آسانی سے اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیئے بہروپیے انہیں سستے کا لالچ دے کر موٹا نمک چینی بنا کر فروخت کر جاتے ہیں۔ راتوں راتوں پیسے ڈبل کرنے کے چکر میں اصل رقم لے کر بھاگ جاتے ہیں۔لڑکیاں امیر لڑکوں سے شادی کے چکر میں اپنی زندگیاں برباد کروا بیٹھتی ہیں اور اس طرح کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
پاکستان میں دھوکہ اس حد تک ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چند روز پہلے میں سفر کر کے واپس لیٹ واپس پہنچا تو میں نے رات اپنے آفس میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس وقت میں نے ماچس کا ایک ڈبہ رستے سے خریدا تھا۔ میں ماچس دیکھ رہا تھا تو اس پر لکھا تھا کہ
50 match stick
میں نے ویسے ہی ان تلیوں کو گننا شروع کر دیا اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں
43
تلیاں تھی۔ اور یہی حال دوسری ڈبیوں کا تھا۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جو قوم پانچ روپے کی ماچس کی ڈبی میں سات تلیوں کا فراڈ کرے اس کی آپ کس بہتری کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ فروٹ لینے جاو تو اچھا فروٹ سامنے رکھ کر اور گندا فروٹ پیچھے رکھ کر کم قیمت پر فروخت کیا جا رہا ہوتا ہے اور جب اسے خود فروٹ ڈالنے کا مطالبہ کرو تو وہ فروخت کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
اس قوم کو جو ہر چیز میں دھوکہ دینے میں ماہر ہو اور راتون راتون امیر بننے کی خواہش مند ہو اسے دھوکہ دنیا بہت آسان ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس قوم سے ایماندار سچے اور قابل لیڈر کی امید پر قوم ستر سال سے دھوکہ کھا رہی ہے۔ اس قوم میں یہ اصول بن چکا ہے کہ جو جتنا لچا ہو گا وہ اتنا ہی اچا ہو گا اور جو جتنا قوم سے جھوٹ بولے گا انہیں ترقی کے خواب دیکھائے گا، راتوں رات ان کی زندگی بدلنے کی بات کرے گا وہ اتنی جلدی کامیاب ہو کر نیشنل لیڈر بن جائے گا ۔
اب بہت سے لوگ جن میں عمران خان کے ووٹر بھی شامل ہیں یہ سوچ رہے ہیں کہ
کیا عمران خان نے بھی قوم کے ساتھ یہی کیا جو اس سے پہلے لیڈر کرتے آ رہے تھے۔
عوام کو جھوٹی امید دلوائی۔
ہر وہ چیز ٹھیک کرنے کا دعوی کیا جسے وہ فکس کرنے کا علم یا مہارت نہیں رکھتے تھے۔ قوم کو بتایا کہ پٹرول پینتیس روپے لیٹر ہونا چاہیے ہے اور اس پر آ دھا ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ لیکن پھر خود ٹیکس اور لیوی کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر لے گئے۔ قوم کو بتایا کہ بجلی کا یونٹ تین روپے کا ہونا چاہیے لیکن خود اپنے اقتدار میں بجلی کا یونٹ بیس روپے کا ہو گیا۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ احتساب کا نعرہ تو لگایا لیکن کسی کا احتساب نہ کر سکے۔ بلیک میل نہ ہونے کا دعوی کیا لیکن اپنی مرضی کے معاملات میں۔ جہاں اپنے اقتدار پر حرف آنے لگا وہاں مزاکرات بھی ہوئے اور وزارتوں اور فنڈوں کی بارش بھی ہوئی۔ پہلے ترقیاتی بجٹ دینے سے انکار کیا لیکن پھر سینٹ الیکشن سے پہلے ارکان اسمبلی کو کروڑوں کے بجٹ دیئے گئے۔
قرضوں کا رونا رویا لیکن مزید قرض لے لیئے۔ کرپشن ختم کرنے کے دعوے کیئے لیکن پھر ان کی اپنی کوک سے کرپٹ جنم لینے لگے۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ تعلیم کو اہم قرار دیا لیکن تعلیم کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہ کیا۔ صحت کی اہمیت پر روشنی ڈالی لیکن وہ بھی زبانی خرچ ہوا لیکن بجٹ میں کوئی قابل ذکر رقم نہیں رکھی گئی۔
پہلے لوگوں نے اسے یو ٹرن کا نام دیا اب لوگ اسے ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر
Goebbels
سے تشبیع دے رہے ہیں۔
جس کا اصول تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کے لوگ سچ سمجھنا شروع کر دیں۔
کیا عمران خان یہ نعرے دھرا کر لوگوں کو صرف یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ وہی عمران خان ہیں جو اصل اقتدار ملنے کے بعد لوگوں کے خوابوں کی تعبیر کریں گے۔
عمران خان کہتے ہیں کسی کو این آر او نہیں دوں گا۔ لیکن سب لوگ جیل سے باہر آ چکے ہیں۔
اور خود عمران خان کی ٹیم کے بہت سے لوگوں کے احتساب کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔
عمران خان ترین گروپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بلیک میل نہیں ہوں گا چاہے حکومت گرا دیں۔ لیکن جہانگیر ترین سے
45
کروڑ کی کرپشن نکلواتے نکلواتے حکومت نے چالیس ایم پی ایز کو فی ایم پی اے دس کروڑ کے حساب سے چار ارب دینے کا وعدہ کرلیا ہے۔ ظاہری سے بات ہے شریف خاندان کو کھلا تھوڑی چھوڑ سکتے ہیں۔ سیاست تو کرنی ہے اور پھر سیاست کے داو پیچ تو یہی ہیں جس میں گند کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس کے علاوہ عمران خان نے
اصلاحات اور تبدیلیوں کے تین درجن کے قریب وعدے کیئے جن میں معیشت، کفایت شعاری، سیاحت، بدعنوانی کے خلاف مہم، غربت کے خاتمے، انصاف کی جلد فراہمی، پولیس کے محکمے کی بہتری، ہاؤسنگ، زراعت اور لائیو سٹاک جیسے شعبوں میں مسائل کے حل کے لیے کیے گئے تھے۔
لیکن کیا ان میں سے ایک بھی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم سنتے ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ وعدہ تو سو فیصد پورا ہو چکا ہے۔
کیا احتساب ہوا۔؟
کیا ملک میں زرعی انقلاب آیا۔ گزشتہ سال ہمیں گندم بیرون ملک سے ڈالروں میں خریدنی پڑی۔
کیا سرکاری ہسپتالوں کی حالت ٹھیک ہو گئی۔؟
کیا غریب کی زندگی میں بہتری آئی یا ٖ غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔؟
کتنے بد عنوان عناصر کو سزا دینے میں کامیاب ہوئے۔؟
غیرقانونی طریقے سے باہر رقم لے جانے والوں کے خلاف کارروائی ہوئی۔؟
ملک میں فوری انصاف کی فراہمی ممکن بنائی گئی۔ دیوانی مقدمات کا فیصلہ ایک سال میں سنایا جانا تھا وہ مکمل ہوا۔؟
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجاب پولیس کے نظام میں اصلاحات لانی تھی وہ لائی گئی۔؟
نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں ملنی تھی۔ کتنے مزید نوجوان بے روزگار ہو چکے ہیں۔؟
سرکاری عمارتوں خصوصاً وزیراعظم ہاوس اور گورنر ہاؤسوں کو عوامی مقامات اور یونیورسٹیوں میں تبدیل ہو گئی ؟
سرکاری اداروں مثلاً پی آئی اے، پی ایس او، سٹیل مل، ریلوے کے نظام کو ٹھیک کیا جانا تھا وہ ہو گیا۔؟
آپ نے کہا تھا
بیرونی قرضے نہیں لیں گے؟ کیا ایسا ہوا۔؟
آپ نے کہا تھا کہ
بتدائی تین ماہ میں وزیراعظم بیرون ملک دوروں پر نہیں جائیں گے۔ اگر دورہ کیا گیا تو یہ تمام سفر کمرشل پروازوں پر ہوں گا اور اس کے لیے کلب کلاس استعمال کی جائے گی۔ لیکن
حلف برداری کے بعد سے
جولائی 2019
تک وزیراعظم عمران خان نے آٹھ ممالک کے 13 غیر ملکی دورے کیے۔ ان دوروں میں تین مرتبہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت، دو مرتبہ چین جبکہ ایک ایک بار ایران، ملائیشیا، ترکی، قطر اور کرغستان گئے۔ ان دوروں کے لیے کمرشل پروازیں استعمال نہیں کی گئیں
لیکن اب لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ حکومت کب تک وعدوں اور دعووں پر عوام کو ٹرخاتی رہے گی۔ کسی بھی حکومت کا پہلا سال ہنی مون پیریڈ کہلاتا ہے لیکن عمران خان کو ہنی مون مناتے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں۔ عوام کو نتائج کب ملیں گے۔؟
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کا سونامی سب کچھ بہا کر لے گیا ہے قبضہ مافیا مضبوط، ادارے کمزور اور معیشت زوال پذیر ہے۔
اور لوگ عمران خان کے بڑے بڑے پر کشش اور سحر انگیز وعدوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
کوئی بھی سیاست دان جب کوئی وعدہ کر کے پورا نہیں کرتا تو اسے جھوٹا کہا جاتا ہے اور جو جتنا برا وعدہ کرے گا وہ اتنا بڑا جھوٹا کہلائے گا۔ عمران خان کے وعدے اور دعوے جو اپوزیشن کے لیئے درد سر بن چکے تھے اب عمران خان کے لیئے درد سر بننے جا رہے ہیں اور یہ عمران خان کی اتنی جلدی جان نہیں چھوڑیں گے۔ عمران خان کے آنے کے بعد لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اب سیاست میں دیانتداری، اخلاص کا بول بولا ہو گا اور اگر عمران خان ناکام ہو گئے جو کہ بظاہر لگ رہا ہے تو ووٹروں کی وہ بڑی تعداد جو ایک امید پر پولنگ اسٹیشن آئی تھی اگلے الیکشن کی چھٹیوں میں فلمیں دیکھ کر گزارے گی۔ جو پاکستان میں جمہوریت کو ایک ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

Leave a reply