وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں کی پسلیاں توڑیں، انہیں اغوا کیا، میڈیا کی آزادی کو کچلا، اور پارلیمان کو تالے لگوائے ہیں.

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے میڈیا کا معاشی قتل کیا اور عمران خان نے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر میڈیا دشمنی کی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کا دور میڈیا کے لیے سیاہ دور تھا جبکہ عمران خان کرپٹ، غیر ملکی ایجنٹ، میڈیا دشمن اور دہرہ معیار رکھتے ہیں۔ میڈیا فیصلہ کرے کہ ان کے خلاف نیب کو استعمال کرنے والے کے سیمینار میں جانا ہے یا نہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ میڈیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اُن کی آزادی اور نوکری چھیننے والے کے سیمینار کے تماشے کو ماننا ہے کہ نہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا واچ نے عمران خان کو فاشسٹ قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے صحافیوں کی پسلیاں توڑیں اور انہیں اغوا کیا۔ میڈیا کی آزادی کو کچلا، پارلیمان کو تالے لگوائے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ چار پانچ دن سے ایک شو لگا ہوا ہے۔ کیا یہ صرف ایک شخص پر تشدد ہوا وہ ایشو ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے؟ اگر کسی پر تشدد ہوا ہے تو حمایت نہیں کرسکتے، مگر بات کچھ اور ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عمران خان شہباز گل کی طرف بار بار کیوں دیکھتے ہیں؟ اس طوطے میں نہ صرف عمران خان بلکہ کچھ اور لوگوں کی بھی جان ہے۔ اب جو رونا دھونا ہوا وہ طوطے کےلیے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ثابت ہوا کہ بھارت اور اسرائیل کی فنڈنگ ہوئی۔ بات یہاں تک نہیں رہی طوطے نے بہت کچھ بتایا ہے۔ سہولت کار اس کو تحفظ دے رہے تاکہ ڈوریں ہلانے والے کا نام نہ لے لیں۔ اصل وجہ طوطے کی زبان بند رکھنا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چار سال وزیر اعظم ہاؤس اور بنی گالہ میں اخلاقیات سے لیکر پیسہ بنانے اور قومی راز اگلنے تک اس طوطے کو سب پتا ہے۔ اس طوطے کی زبان بندی عمران خان کی مجبوری ہے، وعدہ معاف گواہ بنانے کا تو سوال نہیں۔ طوطے سے یہ باتیں اگلوانی چاہییں کہ چار سال میں وزیر اعظم ہاؤس سے بنی گالہ تک عوام کے متعلق کیا منصوبہ بندی ہوئی۔

انہوں نے کہا ہے کہ رات قومی ادارے انوالومنٹ نہ کرتے تو پنجاب اور وفاق کے ادارے ٹکراتے۔ کس حیثیت میں پنجاب انتظامیہ کو حکم دیتے ہو؟ آپ اخلاقی قدروں سے بالکل نا آشنا ہو، آپ مدینہ کی ریاست کی بات کرتے تھے، آپ نے بھارتی ریاست کے مسلمانوں سے بھی زیادہ برا حشر کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ فواد چودھری نے یہ بات نہیں کہی تھی کی بند کمروں میں فیصلے جج اور جنرل کرتے ہیں۔ اگر ان باتوں کا نوٹس نہ لیا گیا، بات تو پھر بڑی ہے، جو طوطے کو کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوج کے خلاف پی ٹی آئی قیادت کی مرضی کے بغیر سٹیج سے نعرے کیسے لگ گئے؟ اب سابق آفیسر سے مدد مانگنا اور باسٹھ لاکھ ماہانہ ادا کرنا کہاں سے آتا ہے؟ اپنی لابنگ کیلئے پیسہ لگانا چندے سے تو نہیں آتا ہے اس کے پیچھے تو کوئی ہوگا۔

انہوں نے کہا ہے کہ میرے لواحقین نے ہائی کورٹ میں درخواست دی ہمارا بیٹا کدھر ہے کوئی معلوم نہیں۔ جب میں چھ بائے چار کے کمرے میں بند تھا اس میں ہزار واٹ کے چالیس بلب لگے تھے۔میں تو باہر آکر نہیں رویا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر میرا چودہ دن کا ریمانڈ ہوسکتا ہے اس کا بارہ دن تو کرلیں،میں تشدد کی حمایت نہیں کرسکتا کیونکہ میں خود متاثرہ ہوں۔ ہمیں چھوڑ دیں، ہم کیسے پکڑے جاتے تھے، کیسے سزائیں ہوتی تھی، کوئی سروکار نہیں طوطے سے پوچھا جائے اس کے پیچھے کون ہے، اسکا نام پبلک ہونا چاہیے، تاکہ یہ سازش رک جائے، پاکستانی قوم مزید تقسیم نہ کی جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دور میڈیا کے حوالے سے کافی متنازع رہا تھا۔ کبھی سوشل میڈیا پر نا پسندیدہ صحافیوں کی فہرستیں سامنے آئیں تھی، تو کبھی صحافیوں کے خلاف آن لائن ٹرولنگ کے الزامات لگے تھے آزادی اظہار رائے پر پابندی کی کوششوں سمیت تحریک انصاف دور میں ایسے قوانین متعارف کروانے کی بھی کوشش کی گئی جن پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا اور اس کے علاوہ عمران خان کے دور میں سینئر صحافیوں کے انٹرویو بھی آف ائیر کیئے گئے تھے.

Shares: