ٹائم میگزین نے اپنے تازہ ایڈیشن میں عمران خان کے بارے میں ایک کور اسٹوری شائع کی ہے جس کے عنوان ’عمران خان کی حیران کن کہانی‘ کے ساتھ اُن کی تصویر سرورق پر لگائی گئی ہے لیکن تحریک انصاف کے بے وقوف کارکنان اور لیڈران سے بنا پڑھے ہی ٹوئیٹ کردیا اور اسے عمران خان کی ایک کامیابی بنادیا.


جبکہ اس آرٹیکل کچھ تعریف اور کچھ تنقید بھری تھی جس میں پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کا تجزیہ کیا گیا تھا اور پاکستان اور عمران خان دونوں کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی۔ جبکہ ٹائم میگزین نے عمران خان کو پاکستان کے موجودہ دِگَر گُوں معاشی حالات کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ عمران خان کی اپنے دور میں ناقص معاشی پالیسی نے پاکستانی معیشت کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ متن کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کے معاشی حالات بگڑنا شروع ہوئے، نااہل افراد کی اقتصادی بدانتظامی نے آئی ایم ایف سے معاہدوں پر منفی اثرات مرتب کیے، عمران خان کا کوئی بھی وزیرِ خزانہ حالات کنٹرول نہ کر سکا اور اقرباء پروری عروج پر رہی۔ ایک طرف آئی ایم ایف سے قرضے لیے گئے اور دوسری طرف سوشل اور ڈویلپمنٹ پروگرامز کے اخراجات کو کم کر دیا گیا، ٹیکس اور صنعتی شعبوں میں بنیادی اصلاحات کیلئے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے گئے جس سے معاشی بدحالی کا آغاز ہوا۔

مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ شہباز شریف کی کابینہ نے 20 مارچ کو اعلان کیا کہ پی ٹی آئی "عسکریت پسندوں کا ایک گروہ” ہے جس کی "ریاست کے خلاف دشمنی” کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، پولیس نے چھاپوں میں خان کے سینکڑوں حامیوں کو گرفتار کر لیا. جبکہ مغرب میں ہمدردی بہت کم ہے جو خان ​​کی برسوں کی امریکہ مخالف بوکھلاہٹ اور طالبان سمیت مطلق العنان اور انتہاپسندوں کے ساتھ ہمدردی کے باعث بند ہے۔ وہ خود مختار ترک صدر رجب طیب اردگان کو "میرا بھائی” کہتے ہیں اور یوکرین کے حملے کے موقع پر ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی، "بہت زیادہ جوش و خروش” پر بھی تبصرہ کیا۔

میگزین نے لکھا عمران خان دو بار اسامہ بن لادن کو "شہید” قرار دے چکےہیں اور بیجنگ کی چین کی ایغور مسلم اقلیت کی قید کی تعریف بھی کرچکے ہیں۔ وہ جو بائیڈن کی وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد انہیں فون کرنے میں ناکامی کا شکار رہے ہیں جبکہ ووڈرو ولسن سنٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں، "وہ ایسا شخص ہے جو شکایات کے اس ناقابل یقین حد تک مضبوط احساس سے متاثر ہے۔”

میگزین نے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے 2018 کے انتخابات میں کامیابی سے قبل 22 سال سیاسی بیابان میں گزارے۔ لیکن ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد، خود ساختہ جرات مندانہ مصلح غیر متزلزل طور پر تقسیم ہو گیا۔ 1997 کیلیفورنیا کی عدالت کے فیصلے کے مطابق، خان کا ایک بچہ بھی ہے، ایک بیٹی، جو شادی کے بعد پیدا ہوئی تھی.

میگزین میں مزید لکھا گیا ہے کہ عمران خان نے اپنی جوانی لندن کے جدید ترین نائٹ سپاٹس میں سپر ماڈلز کے ساتھ گزاری ہے۔ لیکن اس کی سیاست سخت ہوگئی ہے حالانکہ اس کا ماضی ایسا نہیں تھا کیسا وہ اب ہوگئے ہیں.علاوہ ازیں عمران خان نے غصے کو تب بھڑکا دیا جب اگست 2021 میں اس نے کہا تھا کہ طالبان نے اقتدار واپس لے کر "غلامی کی بیڑیاں توڑ دی ہیں” (جبکہ وہ اصرار کرتے ہیں کہ انہیں "سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا”) اور مختلف تبصرے ہوئے اور اس ایک کو نکال کر بدتعمیزی کی گئی.

میگزین نے شائع کردہ مضمون میں عمران خان کو پلے بوائے قرار دیا ہے، ان کی تین شادیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیلیفورنیا عدالت کے فیصلہ کے مطابق ٹیریان عمران خان کی بیٹی ہے جو شادی کیے بغیر پیدا ہوئی۔ مضمون کے مطابق عمران خان کا رجحان آمرانہ سوچ رکھنے والے حکمرانوں کی جانب ہے اور وہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کی حمایت کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر دہشتگردی میں 120 فیصد اضافہ ہوا۔

جبکہ میگزین نے بھی کہا کہ جب عمران خان سے پاکستان میں جنسی تشدد کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عورت بہت کم کپڑے پہنتی ہے تو اس کا اثر مردوں پر پڑے گا، کیونکہ وہ روبوٹ نہیں ہیں. جبکہ عمران خان نے پوتن کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا، چین کی طرح اصرار کیا کہ وہ "غیرجانبدار” رہیں اور متنازعہ کشمیر میں ہندوستان کی مداخلت کے بارے میں دوہرے معیارات پر غیر آرام دہ سوالات کو موڑ دیا.

عمران خان کی دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہش کے متعلق ٹائم میگزین نے لکھا کہ سابق وزیراعظم کے پاس پاکستانی معیشت کی بحالی کا کوئی واضح پلان نہیں ہے جبکہ اس معاشی بدحالی کی ذمہ داری بھی انھی پر عائد ہوتی ہے، وہ ماضی میں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعویٰ پر یوٹرن بھی لے چکے ہیں اور مدینہ جیسی ریاست بنانے کیلئے وہ سکینڈینیویا کے ممالک کی مثالیں دیتے ہیں۔ میگزین نے عمران خان کے متعلق “خود ساختہ مصلح” کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو تقسیم کر دیا ہے۔ مضمون کے مطابق عمران خان کو اندازہ ہے کہ اپوزیشن کرنا حکومت کرنے سے زیادہ آسان ہے، اس سفر میں عمران خان نے تحریکِ لبیک کی بھی حمایت کی جبکہ سابق وزیراعظم کے پاس واضح حکمتِ عملی بھی نہیں تھی۔

Shares: