عمران خان وہ انسان ہیں جن کی ساری زندگی بطور ہیرو گزری 19 سال کی عمر میں آپ نے کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا ہاں آغاز اچھا نہیں ہوا لیکن عمران خان نے تو جدوجہد کرنا سیکھا تھا تو یہاں سے عمران خان کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے عمران خان ٹیم سے باہر ہونے پر ہمت نہیں ہارتا بلکہ اپنے کھیل میں موجود خامیوں کو دور کرنے میں لگ جاتا ہے اور اس میں کامیاب ہو جاتا ہے اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جب عمران خان واپس ٹیم میں آتا ہے تو ایک قابل رشک کھلاڑی بن چکا ہوتا ہے باؤلنگ ہو یا بیٹنگ یا چاہے فیلڈنگ کی بات ہو ہر میدان میں عمران خان کا ڈنکا بجتا ہے اب والا عمران خان پرانے والے عمران خان سے بہتر ہوتا ہے عمران خان اپنے اندر ایک عظیم کھلاڑی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے
عمران خان اپنے آپ کو ایک عظیم کھلاڑی منوا لیتا ہے اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جو عمران خان کی پہچان ہے جی یہ وقت عمران خان کی کپتانی کا ہے آج بھی عمران خان کو شاندار کپتانی کی وجہ سے کپتان کہا جاتا ہے دنیا عمران خان کو بہترین کپتان مانتی ہے عمران خان نے اپنے دور کپتانی میں شاندار قیادت کا مظاہرہ کیا ہے عمران خان نے اس وقت کی ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم جو بہترین تھی اسے ہرا کر دکھایا انگلینڈ میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو ہرا کر دکھایا آسٹریلیا میں آسٹریلیا کو شکست دے کر بتایا کہ ہم جیتنا جانتے ہیں اور سب سے بڑی بات بھارت کو بھارت میں دھول چٹا کر بتایا کہ ہم اپنی تاریخ خود لکھتے ہیں
عمران خان 1987ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچا دیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم آسٹریلیا سے سیمی فائنل ہار جاتے ہیں عمران خان کرکٹ کے میدان سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہے لیکن اس وقت کے صدر کے کہنے پر عمران خان واپس کرکٹ کے میدان میں آتا ہے اب کی بار عمران خان کی آنکھوں میں شوکت خانم ہسپتال بنانے کا خواب بھی بس چکا تھا عمران خان کو پتہ تھا اگر ورلڈکپ جیتے تو شوکت خانم ہسپتال بنانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آۓ گی لہذا اب ایک تیر سے دو شکار کرنے تھے لیکن ورلڈ کپ سے تھوڑا پہلے ہی پاکستان کے اہم کھلاڑی وقار یونس اور سعید انور زخمی ہو کر ٹیم سے باہر ہو جاتے ہیں
یہ بات بھی عمران خان کا یقین نہیں توڑ سکی عمران خان نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں لاتے ہیں سیلیکشن کمیٹی سے لڑ کر انضمام الحق کو ٹیم میں لاتے ہیں یہاں سے ورلڈکپ کی جدو جہد کا آغاز ہوتا ہے آغاز کچھ اچھا نہیں ہوا شروعات میں شکست ہوئی لیکن عمران خان پاکستان ٹیم کو بتاتے رہے یہ ورلڈ کپ ہمارا ہے ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا ٹیم کے لیے یہ نعرہ امید کی کرن ثابت ہوتا ہے اور ہر کھلاڑی جیت حاصل کرنے میں لگ جاتا ہے پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ جاتا ہے یہاں عمران خان کا انتخاب انضمام الحق ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کا انتخاب بالکل صحیح ہوتا ہے کیوں کہ اس میں سفارش کا عمل دخل نہیں ہوتا انضمام الحق اپنی شاندار کارکردگی سے پاکستان کو فائنل میں پہنچا دیتا ہے فائنل میں پاکستان کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوتا ہے عمران خان کارنرڈ ٹائیگر شرٹ پہنے ٹاس کے لیے میدان میں اترتا ہے اور ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرتا ہے پہلے کھلاڑی آؤٹ ہونے کے بعد حیران کن طور پر عمران خان خود میدان میں اترتا ہے اور شاندار ففٹی اسکور کرتا ہے عمران خان کی شاندار بنیاد کا باقی ٹیم فائدہ اٹھاتے ہوئے شاندار اختتام کرتی ہے
باؤلنگ کا وقت آتا ہے تو وسیم اکرم ہیرو قرار پاتا ہے ایک ساتھ دو آؤٹ کر کے میچ پورے طریقے سے پاکستان کے ہاتھ میں کر دیتا ہے آخر پر عمران خان وکٹ لے کر پاکستان کو فاتح بناتا ہے یوں پاکستان عمران خان کی قیادت میں پہلا کرکٹ ورلڈ کپ جیتتا ہے
اس کے ساتھ ہی شوکت خانم ہسپتال بنانے کی جدو جہد کا آغاز ہوتا ہے اور عمران خان دنیا بھر کے بڑے ناموں کو کمپیئن میں لاتا ہے اس سلسلے میں سب سے بڑا نام نصرت فتح علی خان صاحب ہیں جو شوکت خانم ہسپتال کے لیے ہمیشہ خان صاحب کے ساتھ رہے عمران خان لوگوں کے ساتھ مل کر شوکت خانم ہسپتال بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں عمران خان نے نا صرف شوکت خانم ہسپتال بنایا بلکہ اسے دنیا کا بہترین ہسپتال بنا کر دکھایا اور لاکھوں ماؤں کی دعا حاصل کی
ابھی کے لیے اتنا کافی ہے سیاست کے میدان میں عمران خان کی کامیابیاں بیان کرنے کے لیے الگ سے تحریر کی ضرورت ہے انشاء اللہ بہت جلد عمران خان کی سیاست پر بھی تحریر لکھوں گا