وزیراعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب نے جہاں کروڑوں لوگوں کا دل جیتا وہیں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ بیشک اللہ نے عمران کو پاکستانیوں اور خاص طور پر کشمیریوں کیلئے ایک نعمت بنا کر بھیجا ہے۔
اگر میں آپ کو سچ بتاوں تو حقیقت یہ ہے کہ عمران کا خطاب جب شروع ہوا تو میں ڈر گیا، میں نے دیکھا کہ خان صاحب تو یہاں بھی پرچی نہیں لائے، ٹھیک ہے وہ اکثر پرچی کے بغیر ہی بولتے ہیں، لیکن یہ تو موقع ہی بہت بڑا تھا، یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم خطاب ہونے جارہا تھا، یہاں بیشک وہ پرچی سے دیکھ کہ نہ پڑتے لیکن چند ضروری پوانٹس تو پرچی پر لکھ کر لاسکتے تھے نا؟ ظاہر سی بات ہے انسان ہیں وہ بھی، غلطی ہوسکتی ہے، زبان پھسل سکتی ہے، جس کی وجہ سے گیم الٹ بھی ہوسکتی ہے اور ایسا نہ ہو کہ ہمارے ہمسائے ہم پر تنقید کرنے لگ جائیں۔ میں تھوڑا ڈر گیا اور ساتھ دعا بھی کرنے لگا کہ اللہ عمران اور پاکستان کی عزت رکھ لینا۔
خیر خطاب شروع ہوا!!! چہرے پر غصہ، لہجے میں سختی، پراعتمادی، اور بھارت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جواب دینا، اسے کہتے ہیں حقیقی لیڈر۔ میں بھی ہر پاکستانی کی طرح تاریخی خطاب بہت غور سے سن رہا تھا، جس طرح خطاب چلتا گیا، میرا ڈر ختم ہوتا گیا مجھے پتا چلا کہ واقعی جو حقیقی لیڈر ہو اسے کسی پرچی کی ضرورت نہیں، یقینی طور پر تعلیم آپ کی شخصیت کو نکھار دیتی ہے۔ خطاب پر بات کرنے سے قبل ایک اہم ترین بات یہ کرنا چاہوں گا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں پرچی اس لیے بھی ضروری ہے کہ خطاب کے دوران اہم پوائنٹس نہ بھول جائیں، لیکن ایسے لوگوں کو آج کے خطاب کے بعد جواب مل گیا ہوگا، جو بات آپ کے دل سے نکلے وہ کسی بھی پرچی سے بہت بہتر ہوتی ہے۔
اب بات کرتے ہیں اہم ترین خطاب پر، عمران کی یہ تقریر کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کی جنرل اسمبلی میں تقریر سے بڑی اور شاندار تھی۔ جی ہاں! یہ تقریر بھٹو صاحب کے جنرل اسمبلی میں خطاب سے بھی اچھی تقریر تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی وزیراعظم کشمیر کا مسئلہ اتنے مضبوط انداز میں لڑ پاتا۔ خطاب کے دوران عمران نے جنرل اسمبلی میں موجود ہر مذہب کے لوگوں کو انسانیت یاد دلائی، احساس دلایا۔ اس خطاب کو پسند کرنے کیلئے آپ کا پاکستانی ہونا ضروری نہیں.
ایک بات یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ اگر یہی تقریر انہی الفاظ کے ساتھ، بغیر پرچی کے نوازشریف صاحب یا زرداری صاحب بھی کرتے تو پھر بھی اس تقریر کا اتنا اچھا تاثر دنیا پر نہ جاتا، کیونکہ انداز کرنے کا بیان بھی اپنا اپنا ہوتا ہے اور جس انداز اور غصے سے عمران نے کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے، یہ فن بھی صرف و صرف عمران کے پاس ہی ہے۔ میرا اپنا ماننا ہے کہ نریندر مودی نے بھی شاید اسی لیے کشمیر پر اپنا موقف پیش نہیں کیا کہ وہ بھی عمران کی فطرت سے خوب واقف ہیں اور وہ یقینی طور پر جانتے ہوں گے کہ عمران کا ردعمل مزید سخت ہوسکتا ہے، اسی لیے کشمیر کے مسئلہ پر خاموش ہی رہا جائے۔
ہالی وڈ فلم "ڈیتھ وش” کا ذکر اور بتایا کہ جب فلم کے ہیرو کو انصاف نہیں ملتا تو وہ بندوق لیکر باہر نکل جاتا ہے اور سب کرمنلز کو مارنا شروع کردیتا ہے اور سینما میں موجود کس طرح تمام لوگ اس کو کھڑے ہوکر داد دیتے ہیں. دنیا والوں سن لو! اگر کشمیری بھی ایسا کریں تو انہیں بھی ہیرو کہنا، دہشتگرد نہ کہنا…… جی ہاں! یہ ہی الفاظ تھے وزیراعظم صاحب کے جنہوں نےاقوام متحدہ میں ایسا کہا. کیا کوئی اور وزیراعظم ایسا کہہ سکتا تھا، میں سمجھتا ہوں اتنا مضبوط مقدمہ تو کوئی حریت رہنما بھی نہ لڑپاتا اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ کشمیر سے کرفیو ہٹانے میں کامیاب ہوجائے گا اور اس کے بعد جو ہوگا اس کا ذکر خان صاحب کرچکے ہیں.
‘لا الہ اللہ ہم جنگ کیلئے تیار ہیں’ کیا ہی خوبصورت بات کہہ دی۔ میں نے سوچا عمران آپ صرف یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ ‘ہم جنگ کیلئے تیار ہیں’ لیکن عمران نے یہاں بھی دل جیت لیا۔ اگر میری یاداشت کمزور نہیں تو میرا نہیں خیال کہ آج سے پہلے کسی بھی مسلمان لیڈر نے جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر کبھی بھی ‘لا الہ اللہ’ کہا ہو۔ اتنا مضبوط ایمان ہونے پر بھی اللہ کیوں نہ مدد کرتے؟ میں سمجھتا ہوں یہاں عمران پلس پوائنٹ لے گے ہیں، انہوں نے وعدہ تو کشمیر کا مقدمہ لڑنے کا کیا تھا، لیکن وہ اسلام کا مقدمہ بھی لڑ رہے ہیں، بار بار دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اسلام صرف 1 ہی ہے، اور وہ ہے ہمارے نبی پاک ﷺ کا اسلام۔ ہمارا اسلام دہشتگردی کا درس نہیں دیتا۔ حضرت محمد ﷺ ہمارے دلوں میں رہتے ہیں، لہذا ان کی توہین نہ کی جائے، ان کی توہین سے ہمارے دلوں میں تکلیف ہوتی ہے. یقینی طور پر مغرب میں اسلام کی اتنی اچھی تعریف کسی مسلمان لیڈر نے نہیں کی ہوگی.
خان صاحب کے خطاب کے دوران جنرل اسمبلی میں بھارتی وفد کے جس طرح ہوش اڑ گئے اور پسینے چھوٹ گئے تھے، اس سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر پر آنے والے دنوں میں پاکستان کی پوزیشن کتنی مضبوط ہونے جارہی ہے۔ بھارتی میڈیا بھی زیادہ سے زیادہ اسی بات پر تنقید کر رہا ہے کہ یہ تقریر بہت لمبی تھی، شاید ان کے پاس تنقید کیلئے کچھ اور تھا بھی نہیں۔ لیکن عمران کی فطرت سے وہ ناواقف نظر آتے ہیں، جو کہتا ہے کہ آزادی کیلئے پہلی گولی مجھے کھانا پڑی تو وہ بھی کھانے کیلئے تیار ہوں.
مجھے اکثر عمران کی پالیسیوں سے اختلاف رہتا ہے جو کہ رہنا بھی چاہیئے کیونکہ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے اور ہر ایک کو اختلاف رکھنے کا حق بھی حاصل ہے، لیکن اس شاندار خطاب پر بھی جو لوگ تنقید کر رہے ہیں، ان سے میرا سوال ہے کہ کیا آپ میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو جنرل اسمبلی میں 50 منٹ بغیر پرچی کے تقریر کرسکے؟ جب کہ اسے پوری دنیا کا میڈیا بھی دکھا رہا ہو اور کشمیر کا مقدمہ بھی لڑنا ہو؟
عمران خان کا یہ خطاب ان کی زندگی کا بہترین خطاب ثابت ہوا جو کہ بہت لمبے عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ ساتھ ہی ہر مسئلہ کو وہ جس طرح باریکی انداز سے بغیر پرچی کے لیکر چلے اور کشمیر کا مقدمہ جس بخوبی انداز میں دنیا کے سامنے لڑا ہے، میرا اپنا خیال ہے کہ اگر سیکیورٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو قوم نے اس بار کپتان کا استقبال 1992 ورلڈ کپ کی جیت کے بعد سے بھی بڑا کرنا تھا۔ کیونکہ کشمیر کا مقدمہ آدھے سے زیادہ تو وہ جیت ہی گئے ہیں۔
میری طرف سے جناب عمران خان صاحب کی اس تقریر کو 100 میں سے 200 نمبر۔