پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاست میں بلند و بانگ دعووں، تند و تیز زبان، اور خود کو ہر چیز سے برتر سمجھنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ان کا تکبر اور رعونیت ایک ایسا پہلو تھا جس پر نہ صرف ان کے حامی بلکہ ان کے مخالفین بھی اکثر بات کرتے رہے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ اپنی شخصیت کو اس قدر اہم اور منفرد سمجھا کہ سیاست میں دوسرے رہنماؤں کے ساتھ تعلقات اور بات چیت کرنے کی ضرورت کو کم ہی محسوس کیا۔عمران خان اکثر اپنے حریفوں کو کمتر سمجھتے ہوئے ان سے بات کرنے کی بجائے ان کے خلاف تنقید کرنے میں مگن رہتے تھے۔ ان کی زبان میں وہ تکبر کی ایسی جھلکیاں نظر آتی ہیں جو کبھی کبھار حد سے تجاوز کر جاتی تھیں۔
عمران خان نے کئی مرتبہ کہا کہ وہ کبھی بھی نواز شریف، شہباز شریف، اور ان کے حامیوں سے بات نہیں کریں گے۔ وہ ہمیشہ اپنی پوزیشن کو مستحکم اور بہتر سمجھتے تھے اور اپنے مخالفین کو ’’چور‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے۔ ان کے مطابق، یہ سب لوگ صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کرنا وقت کا ضیاع ہوگا۔عمران خان کا انداز اس قدر سخت تھا کہ وہ عام طور پر دوسرے سیاسی رہنماؤں کے لیے نہ صرف توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے، بلکہ ان کے کردار کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے۔ ایک موقع پر، عمران خان نے کہا تھا کہ "میں اور بات کروں گا، میں کسی سے بھی بات نہیں کروں گا، میں ان چوروں سے بات کیوں کروں؟” ان کا یہ تبصرہ نواز شریف اور ان کی جماعت کے خلاف تھا۔
اسی طرح، انہوں نے شہباز شریف کو بھی اکثر نشانہ بنایا اور کہا کہ "شہباز شریف میرے ہوتے ہوئے کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتا”۔ ان کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر سب سے طاقتور شخصیت ہیں، اور ان کے مقابلے میں کسی کو جگہ نہیں مل سکتی۔عمران خان کی زبان کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو ’’ڈیزل‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ اس پر جنرل باجوہ نے انہیں مشورہ دیا کہ سیاست میں احترام باقی رہنا چاہیے، لیکن عمران خان نے اس مشورے کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ "اگر ڈیزل کو ڈیزل نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟” ان کی یہ بات ایک طرف تو ان کے تکبر کی نشاندہی کرتی تھی، دوسری طرف ان کے اندر اپنے مخالفین کے لیے عدم احترام اور نفرت کا اظہار بھی کرتی تھی۔
عمران خان نے نواز شریف کو بھی اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ "نواز شریف کا کھانا بند کر دوں گا، کمرے کا اے سی بند کر دوں گا، اور ان کی جیلیں عام قیدیوں جیسی بنا دوں گا۔” ان کا یہ انداز سیاست میں ایک نئی سطح پر تکبر اور غصے کی عکاسی کرتا تھا۔ وہ نہ صرف اپنے مخالفین کو سیاسی طور پر شکست دینا چاہتے تھے، بلکہ ان کی ذاتی زندگیوں میں مداخلت کرکے ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے۔
عمران خان کے یہ تمام دعوے اور سخت بیانات آج اللہ کی قدرت کے سامنے جھک چکے ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ خود کو غیر متزلزل اور ناقابل شکست سمجھتے تھے، لیکن آج ان کے سامنے حقیقت کچھ اور ہے۔ آج جب وہ خود سیاست کے میدان میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، تو وہ وہی باتیں اور بیانات واپس یاد کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے مخالفین کے بارے میں کہے تھے۔عمران خان آج اڈیالہ جیل میں ہیں اور اسی شہباز شریف سے جن سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے، عمران خان اب خود چور بھی ثابت ہو چکا ہے اور بات بھی کرنے کو تیار ہے، لیکن آگے سے عمران خان کی سننے کو کوئی تیار نہیں۔ عمران خان کی ساری تکبر اور رعونیت کا جواب اللہ کی طرف سے ایک قدرتی ردعمل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ان کے خلاف جو الزامات اور کرپشن کے کیسز بنے، وہ آج ان کے پیچھے ہیں۔ ان کی سیاسی طاقت جو کبھی بے پناہ تھی، اب کمزوری میں تبدیل ہو چکی ہے۔
عمران خان کا تکبر اور رعونیت ایک ایسا باب ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور ان کے رویے نے نہ صرف ان کے حامیوں بلکہ مخالفین کو بھی حیران کن طور پر متاثر کیا ہے۔ آج ان کے سامنے ایک نئی حقیقت ہے جس کا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی شخص اپنی تکبر اور غرور کے ساتھ ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا، اور اللہ کی قدرت ہر شخص کو اس کی حقیقت دکھا دیتی ہے۔