توہین عدالت کیس: عمران خان کا جواب مسترد، 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

0
47

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین کیخلاف توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کا جواب مسترد کرتے ہوئے 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے خاتون جج کو دھمکی دینے کے معاملے پر توہین عدالت کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے وکلا، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کو سنا گیا، عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں۔حکم نامے میں کہا گیا کہ عمران خان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔تحریری حکم نامہ 2 صفحات پر مشتمل ہے، جسے 5 رکنی لارجر بینچ نے جاری کیا۔تحریری حکم نامہ کے مطابق 22 ستمبر کو دن ڈھائی بجے کیس کی سماعت ہو گی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ ببینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل ہیں۔

عمران خان کے خلاف خاتون جج زیبا چودھری کو دھمکی دینے سے متعلق توہین عدالت کیس کی چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا 5 رکنی بنچ نے سماعت کی، دیگر ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل ہیں۔ عمران خان کی عدالت آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ سماعت کے دوران روسٹرم پر زیادہ وکلا آنے پر چیف جسٹس نے دیگر وکلا کو بیٹھنے کا کہہ دیا اور پھر عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دینا شروع کیے۔

قبل ازیں حامد خان نے مؤقف اپنایا عدالت میں ضمنی جواب جمع کرایا گیا تھا، جواب گزشتہ سماعت پر عدالت کی آبزرویشنز کی بنیاد پر تشکیل دیا ہے، ہم نے جواب کے ساتھ دو سپریم کورٹ کی ججمنٹس لگائی ہیں۔ چاہتے ہیں توہین عدالت کیس کو بند کردیا جائے۔

دلائل کے دوران وکیل حامد خان نے دانیال عزیز کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سپریم کورٹ کے توہین عدالت کیسز کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا، گزشتہ سماعت کے حکم نامے میں عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے مقدمات کا حوالہ دیا۔

پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کا کیس دانیال عزیز اور طلال چودھری کے مقدمات سے مختلف ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل، سول اور کریمنل 3 طرح کی توہین عدالت ہوتی ہیں، دانیال عزیز اور طلال چودھری کے مقدمے میں کریمنل توہین نہیں تھی، انہوں نے عدالت کے کردار پر بات کی تھی۔ عمران خان کی کریمنل توہین ہے، زیر التوا مقدمے پر بات کی گئی، آپ کا جواب پڑھ لیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے ہم پر بائنڈنگ ہیں، سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا۔

عدالت عالیہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فردوس عاشق اعوان کیس میں 3 قسم کی توہین عدالت کا ذکر ہے، ہم نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کی، عدالت پر تنقید کریں، ہم سکینڈلائز کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کریں گے، کریمنل توہین عدالت بہت سنجیدہ نوعیت کی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت میں دانست غیرمتعلقہ ہو جاتی ہے، اسے نہیں دیکھا جاتا، کریمنل توہین عدالت میں یہ نہیں کہا جاتا بات کرنے کا مقصد کیا تھا، ہم نے آپکو سمجھایا تھا کہ یہ کریمنل توہین عدالت ہے۔ آپکا جواب حتمی تھا اور ہم نے تفصیلی پڑھا، آپ کو ہدایت کی تھی کہ سوچ سمجھ کر اپنا جواب داخل کریں۔

حامد خان نے کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کریمنل توہین عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، اس عدالت کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ ریڈ لائن ہے، اگر کسی جج کے فیصلے سے متاثر ہوں تو اس کا طریقہ کار قانون میں موجود ہے، توہین آمیز بات کون اور کہاں کرتا ہے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے۔ سوسائٹی اتنی پولرائز ہے فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر یہی کام وہ اس جج کیساتھ کریں تو پھر کیا ہو گا؟ کیا لب لہجہ کسی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے لئے استعمال کی جا سکتا ہے؟

Leave a reply