نیویارک : 4 برس کے دوران افغانستان میں سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال بچوں سے متعلق 14 ہزار سے زائد سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بنی، جس میں 3 ہزار 500 نوجوان قتل اور 9 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹریانتونیو گوتیرس نے کہا کہ یہ تشویش کی بات ہے کہ 2015 سے 2018 میں 12 ہزار 600 بچوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی جو تمام شہریوں کی ہلاکتوں کی تقریباً ایک تہائی کی نمائندگی کرتی ہے۔انہوں نے لکھا کہ گزشتہ 4 برسوں کے مقابلے میں بچوں کی اموات میں 82 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
انتونیو گوتیرس نے افغانستان میں بچوں اور مسلح تنازع پر اپنی چوتھی رپورٹ میں لکھا کہ زمینی تنصیبات، جنگ کی دھماکا خیز باقیات اور فضائی حملوں کے نتیجے میں بچوں کی اموات میں اضافے کا معلوم ہوا۔سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں خاص طور پر حکومت اور حکومتی اتحادی فورسز کی جانب سے فضائی آپریشن کے نتیجے میں بچوں کی ہلاکتیں اورزخمی ہونے کی تعداد پر سخت تشویش ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2015 سے فضائی حملوں میں بچوں کی ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ ہوا جس نے گزشتہ 4 برسوں کے کم ہوتے رجحان کو تبدیل کردیا، ساتھ ہی اقوام متحدہ نے تصدیق کی کہ 2015 سے 2018 میں فضائی حملوں میں ایک ہزار 49 بچے ہلاک ہوئے جس میں 464 نوجوان تھے جبکہ یہ اعداد و شمار فضائی حملوں میں 40 فیصد عام شہریوں کی ہلاکتوں کو بیان کرتے ہیں۔
انتونیو گوتیرس کا کہنا تھا کہ مسلح گروہ بچوں کی 43 فیصد ہلاکتوں، 3 ہزار 450 کے قتل اور 9 ہزار 149 کے زخمی ہونے کے لیے ذمہ دار تھے جبکہ طالبان کے جنگجو اس میں اکثریت کے لیے ذمہ دار تھے۔سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے مسلح گروہوں اور حکومتی فورسز کی جانب سے 274 بچوں کو بھرتی اور استعمال کرنے، 13 لڑکوں اور 4 لڑکیوں کے خلاف جنسی استحصال اور اسکولز اور تعلیمی نمائندوں پر 467 حملوں کی تصدیق کی۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2016 سے دسمبر 2017 کے درمیان افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان بھر میں موجود برادری کے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تنازع میں فریقین کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال کے لیے استعمال کرنا عام اور بڑے پیمانے پر تھا۔