بھارت کی سفارتی ناکامی اور آم ڈپلومیسی کا زوال
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفٰی بڈانی
سفارت کاری بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ دنیا کے ممالک مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے استوار کرتے ہیں، جن میں بیک ڈور ڈپلومیسی یعنی خفیہ مذاکرات، ٹریک ٹو ڈپلومیسی جو غیر سرکاری افراد کے ذریعے رابطوں پر زور دیتی ہے، کرکٹ ڈپلومیسی جو کھیلوں کے ذریعے ممالک کو قریب لاتی ہے، ثقافتی ڈپلومیسی جو فنون اور روایات کے تبادلے سے روابط بڑھاتی ہے اور آم ڈپلومیسی جو تحائف کے ذریعے خیر سگالی کا اظہار کرتی ہے شامل ہیں۔ بھارت نے اپنے مشہور الفانسو اور کیشر آموں کو سفارتی تحفے کے طور پر استعمال کر کے اپنی سافٹ پاور کو فروغ دینے کی کوشش کی، لیکن یہ منصوبہ نہ صرف ناکام ہوا بلکہ اس کی خارجہ پالیسی کی کمزوریوں اور چالاکیوں کو بھی عیاں کر گیا۔ بھارت نے اس منصوبے کے ذریعے امریکہ کے ساتھ سیاسی، معاشی اور سفارتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ناقص منصوبہ بندی اور دستاویزات کی خامیوں نے اسے شرمندگی سے دوچار کیا۔
8 اور 9 مئی 2025 کو ممبئی سے 15 کنٹینرز پر مشتمل آموں کی کھیپ شعاع ریزی کے عمل سے گزر کر امریکہ بھیجی گئی جو کیڑوں کو ختم کرنے اور آموں کی شیلف لائف بڑھانے کے لیے ضروری تھا۔ تاہم امریکی حکام نے PPQ203 فارم کی نامکمل تیاری کا بہانہ بنا کر اس کھیپ کو لاس اینجلس، سان فرانسسکو اور اٹلانٹا کے ہوائی اڈوں پر مسترد کر دیا۔ بھارتی برآمد کنندگان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شعاع ریزی کا عمل مکمل کیا تھا اور PPQ203 فارم بھی تیار تھامگر یا تو بھارتی عملے کی غفلت یا امریکی حکام کی سخت پالیسی کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہوئی۔ نتیجتاً برآمد کنندگان کو دو مشکل فیصلوں کا سامنا کرنا پڑا، آموں کی کھیپ واپس بھارت بھیجیں، جو خراب ہونے والے آموں کے لیے مہنگا اور غیر عملی تھا یا اسے امریکہ میں تباہ کر دیں۔ انہوں نے آموں کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے تقریباً 500,000 ڈالر یعنی 4.15 کروڑ روپے کا مالی نقصان ہوا۔ یہ واقعہ بھارت کے برآمدی نظام کی خامیوں اور سفارتی تیاری کی کمی کو واضح کرتا ہے۔
یہ ناکامی صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کا تسلسل ہے۔ ماضی میں بھی بھارت نے 1950 کی دہائی میں چین کے ساتھ آم ڈپلومیسی کی کوشش کی تھی جو خاطر خواہ نتائج نہ لا سکی۔ اس بار بھی بھارت کی نام نہاد سافٹ پاور امریکی ہوائی اڈوں پر ضائع ہو گئی، جو اس کی سفارتی ناکامی کی علامت بن گئی۔ ایگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور مہاراشٹر اسٹیٹ ایگریکلچرل مارکیٹنگ بورڈ کے درمیان رابطوں کی کمی نے اس ناکامی کو مزید گہرا کیا۔ یہ واقعہ بھارت کے برآمدی نظام میں شفافیت کی کمی اور ناقص انتظامی ڈھانچے کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
بھارت کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے چالاکی اور چاپلوسی پر مبنی رہی ہے۔ وہ اپنے مفادات کے لیے عالمی طاقتوں کے سامنے سر جھکاتا ہے، لیکن اس کی ناقص منصوبہ بندی اسے ہر بار ناکام کرتی ہے۔ حالیہ پاک بھارت چار روزہ جنگ (مئی 2025) میں پاکستان کے ہاتھوں میدان جنگ میں شرمناک شکست نے بھارت کی عسکری اور سفارتی کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔ اس جنگ نے نہ صرف بھارت کے فوجی دعووں کی قلعی کھولی بلکہ اسے عالمی سطح پر سفارتی تنہائی سے بھی دوچار کیا۔ امریکہ جو بھارت کا اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے نے بھی اس موقع پر بھارت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ آم ڈپلومیسی کی ناکامی اور امریکی حکام کی جانب سے کھیپ کی مستردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اپنی چالاکیوں سے عالمی برادری کو متاثر نہیں کر سکتا۔
اب سفارت کاری کا دور بدل چکا ہے اور بھارت کی دھونس دھاندلی، عیاری اور مکاری عالمی سطح پر ناکام ہو چکی ہے۔ پاکستانی خارجہ پالیسی اور اس کے پالیسی ساز بھارت کی ان چالاکیوں کو ہر عالمی فورم پر بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بھارت جہاں جہاں جائے گا پاکستان اس کی بچھائی ہوئی چالیں دنیا کے سامنے لاتا رہے گا اور اس کی ہر مکروہ سازش کو ناکام بنائے گا۔ اب وہ وقت چلا گیا جب روس بھارت کے لیے اقوام متحدہ میں ویٹو پاور استعمال کر کے اسے بچا لیتا تھا۔ بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کی سافٹ پاور کے دعوے محض دھوکا ہیں اور اس کی ناقص خارجہ پالیسی عالمی برادری میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ اگر بھارت نے شفافیت، پیشہ ورانہ تیاری اور مضبوط نظام کو نہ اپنایا تو آم ڈپلومیسی کی طرح اس کی تمام سفارتی کوششیں ناکامی کا شکار ہوتی رہیں گی اور عالمی برادری اسے مکمل طور پر مسترد کرتی رہے گی۔