انصاف کی اندھی دیوی،تحریر:انعم شیخ
کسی بھی ریاست کو کامیاب بنانے کیلئے مضبوط نظام عدل انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ جس معاشرے میں انصاف سستا اور فوری ملتا ہے اس میں قانون کی بالادستی موجود ہوتی ہے۔ امیر اور غریب کیلئے حدود اور اصول برابر ہوتے ہیں۔ریاست ہر خاص و عام کیلئے ماں کا کردار ادا کرتی ہے لیکن جہاں منصف اپنے عہدے سے بے وفائی کرے، جہاں عدل کرنے والا انصاف کا قتل کرے, اُس معاشرے سے اخلاقیات، امن ، قانون اور استحکام کا خاتمہ ہوجاتا ہے، ریاستیں ٹوٹ جاتی ہے، خانہ جنگی جنم لیتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پزیر ممالک کے درمیان جو ایک بڑا فرق ہے وہ مضبوط نظام عدل کا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو تیسری دنیا سے تعبیر کرنے کی ایک بڑی وجہ کمزور اور ناقص عدالتی نظام بھی ہے اور بدقسمتی سے پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں آئے روز انصاف کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔
پاکستان میں جہاں مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے وہاں آٹا دال چینی کے پچاس روپے زیادہ ہونے پر تو ہم میڈیا پر اودھم مچا دیتے ہیں لیکن کسی اُس مظلوم کی آہیں اور سسکیاں ہماری سماعت تک نہیں پہنچتی جو انصاف کے لیے اپنی تمام جمع پونجی لٹا کر بھی ظالم کے خلاف ہر روز ہار جاتا ہے۔ اُس غریب کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں جو طاقتور کے خلاف چیخ چیخ کر خود کو ہلکان کر لیتا ہے کیونکہ وہ ایک کمزور ہے اور اس ملک میں کمزور کی آہ و پکار طاقت کی ایوانوں تک نہیں پہنچتی کیونکہ اس کی گویائی کو منصف کے بلند منصب تک پہنچنے کے لیے مال و زَر کی اُڑان بھرنی پڑتی ہے جو اس غریب کے بس سے باہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ انصاف کی اندھی دیوی اکثر و بیشتر ناانصافی کر جاتی ہے۔
پاکستان میں عام شہری تھانے کورٹ کچہری کے نام سے بھی خوف کھاتا ہے اس لیے جرائم کے آدھے سے زیادہ واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور مظلوم چپ کر کے ظلم سہنے میں ہی خیر جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پچاس ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہے جبکہ ہائی کورٹس اور دیگر میں لاکھوں مقدمات کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہزاروں مقدمات ایسے ہیں جن کا فیصلہ آنے تک یا تو مظلوم رزق خاک بن چکے ہوتے ہیں اور ان کی انگلی نسلیں پیشیاں بھگت رہی ہوتی ہیں۔
حضرت علی کا قول ہے کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔ ہم مغرب کی برائیوں کا تو اکثر ذکر کرتے ہیں لیکن ان باتوں پر کبھی غور نہیں کرتے جو ان تمام تر برائیوں کے باوجود مغرب کی ترقی کا راز ہے جن میں سب سے بڑا راز عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لا انڈیکس 2021 کے مطابق پاکستان 139 ممالک میں سے 130 ویں نمبر پر ہے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ غیر اسلامی ممالک انصاف کی فراہمی میں اسلام کے نام پر قائم پاکستان کو مات دیتے ہیں۔ سوچئیے آخر کیوں؟ کیونکہ یہاں لا قانونیت راج کرتی ہے۔ یہاں جج صاحبان سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں یا تو بک جاتے ہیں یا بلیک میل ہوتے ہیں، یہاں وکلا ہسپتالوں پر حملے کرتے ہیں یا عام شہریوں کو سر عام تھپڑ رسید کرتے ہیں یہاں تک کہ اپنے خلاف فیصلے آنے پر خود ججز پر ہی چڑھ دوڑتے ہیں، یہاں بار کونسلز اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو کر سیاست میں ملوث ہیں۔ ایسے میں غریب کا پرسان حال کون ہو گا؟
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں عدالتوں کی تاریخ ہمیشہ متنازع رہی ہے۔ اعلی عدلیہ کے بڑے بڑے فیصلوں پر آج بھی سوالیہ نشان کھڑے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو آج بھی جوڈیشل کلنگ کہا جاتا ہے۔جج ارشد ملک کے متنازع بیانات نے نواز شریف کو پانامہ کیس میں سزا پر آج بھی سوالیہ نشان کھڑا کیا ہوا ہے۔ حدیبیہ پیپر کیس آج بھی کئی شکوک و شبہات کی زد میں ہے جبکہ اگر ججز کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں کیسے کیسے قابو کرتی رہی ہیں۔ سابق جج افتخار چودھری کو تاریخ کا متنازع ترین جج مانا جاتا ہے۔ سابق جج ارشد ملک کا بلیک میل کر کے من پسند فیصلے کروائے جانے کا بیان بھی ہمارے سامنے ہے۔ سابق جج ملک قیوم کو شہباز شریف کی جانب سے بذریعہ فون بے نظیر بھٹو اور زرداری کے مقدمات کے فیصلے سے متعلق ہدایات دی جاتی تھی۔
سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیانات کی روشنی میں رفیق تارڑ، سیف الرحمن، شہباز شریف اور کیپٹن صفدر ججوں سے انکے گھروں پر جا کر ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ حال ہی میں سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی کی سپریم کورٹ میں اڑتی ہوئی دھجیاں بھی ہمارے سامنے ہیں اور رانا شمیم کی ماضی میں نون لیگ سے سیاسی وابستگیاں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اگر کوئی جج ان سیاستدانوں سے قابو نا ہو تو پھر اسکے ساتھ وہی ہوتا ہے جو سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ہوا جب نون لیگ نے سپریم کورٹ پر حملہ کر کے سجاد علی شاہ کو نشانہ بنایا اور پھر وہی ہوتا ہے جو سپریم کورٹ کے جج اعجاز الاحسن کے ساتھ ہوا جب ماڈل ٹاؤن میں انکے گھر پر نامعلوم افراد نے دو بار فائرنگ کی اور ان مجرموں کا سراغ آج تک نہ لگایا جا سکا اور پھر وہی ہوتا ہے جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ ہو رہا ہے، کبھی ان پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں اور کبھی انکے خلاف جعلی آڈیوز نکالی جاتی ہیں اور اگر ہمیں یاد ہو تو جنوری 2018 میں سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے بیٹے سعد گلزار کی گاڑی پر بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کی اور اس کے علاوہ متعدد بار معزز جج صاحبان پر نہ صرف حملے ہوئے بلکہ کئی جج ان حملوں میں شہید بھی ہوئے۔ غرض یہ کہ اس نظام عدل میں انصاف ممکن کیونکر ہو گا جہاں خود منصف ہی محفوظ نہیں؟ جہاں بیرسٹر خدیجہ صدیقی پر خنجر سے تئیس وار کرنے والے اقدام قتل کے مجرم کو ساڑھے تین سالوں میں ہی رہا کر دیا جائے، جہاں شاہ رخ جتوئی جیسے سفاک قاتل پر عدالت کو ترس آ جائے، جہاں ایان علی کی منی لانڈرنگ عیاں کرنے والے ایماندار کسٹمز انسپکٹر اعجاز کو ایمانداری کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑے، جہاں ماڈل ٹاؤن میں دن دیہاڑے ریاستی دہشت گردی میں چودہ شہدا کے لواحقین آج بھی انصاف کے متلاشی ہوں، جہاں صحافی عزیز میمن اور ناظم جوکھیو کو حق بولنے کی سزا میں قتل کر دیا جائے، جہاں ایک نہتی بیٹی اُم رباب چانڈیو ننگے پاؤں اپنے دادا، والد اور چچا کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہر منصف کے در پر ایڑھیاں رگڑے اور چار سال گزرنے کے بعد بھی اسکو تاحال انصاف نا مل پائے جبکہ قاتل، لٹیرے اور بدمعاشوں کو عدالتوں سے رعایتیں بھی مل جائیں اور ضمانتیں بھی میسر ہوں تو اس معاشرے میں ہر نئے دن ظاہر جعفر بھی پیدا ہونگے اور عثمان مرزا بھی منظر عام پر آئیں گے۔ ریاست کو ہر طاقتور مجرم کو کچلنا ہو گا ورنہ وہ دن دور نہیں جب فیصلے سڑکوں چوکوں اور چوراہوں پر عوام خود کرے گی بالکل اسی طرح جس طرح ایک ماں پروین اختر نے عدلیہ سے مایوس ہو کر اپنے بیٹے کے مبینہ قاتلوں کو اپنی ہی عدالت میں سزائے موت سنا کر سات سال بعد قتل کر ڈالا تھا۔ اختتام بس فیض احمد فیض کے اس مصرعے پر کرنا چاہوں گی۔
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے