سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن التوا کیس کی سماعت ہوئی
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراپی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ، وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی،وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کےوکیل عرفان قادر روسٹرم پر آگئے،الیکشن کمیشن کےوکیل عرفان قادر کے دلائل شروع ہو گئے، عرفان قادر نے کہا کہ کوشش ہے اپنی بات مختصر رکھوں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کتنی دیر دلائل دینگے، عرفان قادر نے کہا کہ میں کوشش کرونگا 30 منٹ میں تک اپنی بات مکمل کرلوں،اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بنچ سے الگ ہوجاتے ہیں،ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں،بنچ سے جانبداری منسوب کی جارہی ہے،پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کرچکی ہے فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے،پتہ پتہ بوٹا بوٹا باغ تو سارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے،
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدالت پر عدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیئے میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا، ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو،الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہیے فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہیے ،9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں3 ججز نے حکم جاری کیا، عدالت اس تنازعہ کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے، فیصلے کی تناسب کا تنازعہ ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے، سرکولر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا،چیف جسٹس اپنے سرکولر پر خود جج نہیں بن سکتے،عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے،یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا،ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے،قومی مفاد آئیں اور قانون پر عملدرآمد میں یے، آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے، ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں، ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں ،ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی،قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری یے،صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے دو سال پہلے نہیں.
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دیدی ہے، پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں، صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاذ نہیں، صدر کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے، صدر ہر کام میں کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے، الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کیلئے ہے، ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں 184/3 تنازعہ حل کرنے تک مقدمے پر سماعت روکی جائے۔جسٹس فائز عیسی سینئر جج ہیں انکے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی سے پرسوں ملاقات ہوئی ہے۔ان معاملات پر تمام ججز جلد ملیں گیے، جسٹس فائز عیسی ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ کیے ہیں، رولز بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی، عرفان قادر نے کیس سے متعلق نکات اٹھائے ہیں، آپ نے ایک اہم نقطہ اٹھایا ہے جو میں دوبارہ نہیں اٹھاوں گا،
وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ میں سوشل میڈیا کی بات کر رہا تھا، عرفان قادر نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جناب چیف جسٹس سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ ہیں، چیف جسٹس کے حق میں درخواستوں پر دستخط ہو رہے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم مولا سے خیر مانگتے ہیں، آپ سوشل میڈیا کی بات کر کے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں،عرفان قادر نے کہا کہ آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم سوشل میڈیا نہیں دیکھتے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 6 ججز کی رائے کے بعد 3 رکنی بینچ سماعت نہیں کرسکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی تحلیل درست تھی یا نہیں،وزیر اعلی پرویز الٰہی کی آڈیو لیک آئی جو فواد چوہدری سے متعلق تھی،پرویز الٰہی نے کہا کہ فواد چوہدری پہلے گرفتار ہوتے تو اسمبلی نہ ٹوٹتی، پنجاب اسمبلی نہ وزیر اعلی نے توڑی نہ گورنر نے، جسٹس اعجاز الاحسن کو پانچ رکنی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مناسب ہوتا شفافیت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہ کیا جاتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں ، عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا بہت مداح ہوں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مداحی پر آپ کا مشکور ہوں،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل ریکارڈ سے دکھائیں جسٹس اعجاز الاحسن کب بینچ سے الگ ہوئے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے دو ججز کے نوٹ کے خلاف ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکمنامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا،کئی مرتبہ تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور دو ججز واپس آتے تھے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں،وکیل الیکشن کمیشن عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا، ماحول پورے ملک کی طرح عدالت اور باہر خراب ہے، ماحول ٹھنڈا کرنے میں اٹارنی جنرل نے مدد نہیں کی، یہ ایشو پارلیمنٹ کو خود حل کرنا چاہیے تھا،الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر کے دلائل مکمل ہوگئے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل سے محظوظ ہوئے ہیں،
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت میں دلائل دینا چاہتا ہوں، پی ڈی ایم کے اعلامیے میں بائیکاٹ کا ذکر نہیں ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بینچ پر اعتماد نہیں ہے تو دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟ اظہر صدیق نے کہا کہ کہا گیا لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں مقدمات زیر التوا ہیں،کسی ہائیکورٹ میں مقدمہ زیر التوا نہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ سیکرٹری دفاع دستاویزات کب تک دیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج کسی بھی وقت عدالت کو دستاویزات دے دیں گے،گورنر کے پی کے وکیل پیروی سے معذرت کر چکے ہیں ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کے پی کے کا ذکر نہیں ہے،
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کے جواب الجواب دلائل شروع ہو گئے،علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پر کسی نے بات نہیں، الیکشن کمیشن نے نہیں بتایا کہ اسے الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار کہاں سے ملا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سجیل سواتی نے سیکشن 58 کا حوالہ دیا تھا ،علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتا، الیکشن کمیشن نے اپنے حکم میں آرٹیکل 218/3 کا حوالہ دیا، آرٹیکل 218/3 الیکشن کروانے کا پابند بناتا ہے، الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں کر سکتا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا ،عرفان قادر نے کہا صدر حکومت کی سفارش کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا ،کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں،عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے، سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے، اکرم شیخ تیاری سے آئے تھے ان کے موکل نے ان کو بولنے نہیں دیا، اکرم شیخ کے موکل کو نظر انداز نہیں کر سکتے،اٹارنی جنرل نے اس نقطے پر گفتگو نہیں کی،اٹارنی جنرل سے گلہ ہے کہ وہ 3/4 پر ہی زور دیتے رہے،اس نقطے پر اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں ،علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے طور پر انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا،کے پی کے میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دینی ہے،کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ بدل سکتا ہے؟میری نظر میں الیکشن کمیشن آئین سے بالاتر اقدامات نہیں کرسکتا، بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرتا ہے،الیکشن کمیشن نے سارا ملبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ڈالا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات بھی ہوسکتے ہیں جب انتخابات ملتوی ہوسکیں،وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں، انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا،عدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے، حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی، حکومت نے الیکشن کروانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی، ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے،
سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ،فیصلہ کل سنایا جائے گا ،فیصلہ کل ساڑھے گیارہ بجے فیصلہ سنایا جائے گا
سپریم کورٹ میں وقفے سے قبل کی سماعت کے بارے میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
سیاسی بحران پیچھے رہ گیا، آئینی بحران نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا
فیصلے کی نہ کوئی قانونی حیثیت ہوگی نہ اخلاقی
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کا بار بار ٹوٹنا سوالیہ نشان ہے،
انصاف ہونا چاہیئے اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیئے،
عدالتوں میں کیسسز کا پیشگی ٹھیکہ رجسٹرار کو دے دیا جائے
آئندہ ہفتے مقدمات کی سماعت کے لئے بنچز تشکیل
حکومت صدارتی حکمنامہ کے ذریعے چیف جسٹس کو جبری رخصت پر بھیجے،امان اللہ کنرانی
9 رکنی بینچ کے3 رکنی رہ جانا اندرونی اختلاف اورکیس پرعدم اتفاق کا نتیجہ ہے،رانا تنویر