انصاف کا دوہرا معیار تحریر :  محمد زیشان روؤف

0
72

‏ 

کہتے ہیں معاشرے میں برائی کرنا جتنا آسان ہو جاتا ہے اس قدر اس برائی کے ارتکاب میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے اور کوئی بھی برا کام کرنے میں آسانی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب اس کا سر انجام دینا آسان ہو چکا اور پہلے مشکل تھا بلکہ کسی بھی گناہ اور جرم پر مناسب سزاؤں کے رحجان میں کمی ہی اصل آسانی ہے جو باقی دیکھنے والوں کو بھی جرم کرنے پر اکساتی ہے۔ جب مجرم کو سزا نہیں ملتی تو باقی لوگوں کو شہہ ضرور مل جاتی ہے کہ ویسا ہی جرم وہ بھی دہرائیں اور جو جرم کر چکا ہوتا ہے اسکے تو جیسے منہ کو خون لگنے والی بات ہو جاتی ہے۔ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ سزا جزا کا تو کوئی عمل دخل ہی نہیں اس لئے بار بار جرم ہوتے رہتے  ہیں ۔

 پاکستان کا المیہ یہی رہا ہے کہ قانون تو بنا دیا جاتا ہے مگر اس پر عمل درآمد کروانا کبھی ممکن نہیں ہو سکا۔ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ قانون کو گھر کی باندی سمجھ لیتے ہیں اور اس طرح معاشرے میں جرم پروان چڑھتا رہتا ہے اور آئے دن نیا سے نیا جرم سامنے آتا ہے دو یا چار دن سوشل میڈیا ,  پرنٹ اور  الیکٹرانک میڈیا پر شور مچتا ہے پھر کوئی نیا کیس سامنے آ جاتا ہے اور پرانے کیس پر سے سب کی نگاہیں ہٹ جاتی ہیں اور یوں کبھی کسی کیس کا فیصلہ سامنے نہیں آتا جو کہ لوگوں کے لیئے نشان عبرت بن سکے۔ جب تک سزاؤں پر شرعی طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں ہو گا تب تک لوگ عبرت حاصل کیسے کریں گے۔ اس لیئے ہمیشہ سے برائی کی جڑ کو پکڑنے کی ضرورت رہی۔ اور برائی کی جڑ ہمارے معاشرے میں انصاف کا نہ ہونا ہے  ۔

اگر بروقت سزا  جرم ہونا شروع ہو جائے تو معاشرے میں آدھی برائیاں تو خود بخود ہی ختم ہو جائیں گی۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں طاقتور کو سزا دینے کا رواج ہی نہیں کمزور بغیر جرم کے بھی چار پانچ سال سزا کاٹ لیتا ہے۔ انصاف کا یہ دہرا معیار ہمارے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔  جس معاشرے کی جڑیں عدل و انصاف کی وجہ سے کھوکھلی ہونا شروع ہو جائیں اس معاشرے کو تباہی سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ حضرت علی (رض) کا قول ہے

کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ناانصافی کانہیں

عدل و انصاف کسی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے۔  جب آپ ریڑھ کی ہڈی کو نکال دیں گے تو پھر جسم کا کیا بنے گا۔

عواموانصاف کی فوری اور معیاری فراہمی کو کس قدر ترسی ہوئی ہے اس کا اندازہ جنرل الیکشن 2018میں عمران خان کی جیت سے واضع ہے۔ خان صاحب نے عدل و انصاف کا نعرہ لگایا تھا عوام نے عدل و انصاف کو ویلکم کیا اور ووٹ دیا۔

لیکن پاکستان میں نظام عدل قائم ہونا نا ممکن نظر آتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جو اسلام کے نام ہر حاصل کیا گیا ہو وہاں 4 ماہ سے 4 سال تک کی بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے لیکن ایک طبقہ جو لبرل ازم کا جھنڈا اٹھائے پھرتا ہے وہ یہ کہے کہ سر عام سزا دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آتا ہے۔ اور ایسے قاتلوں اور درندوں کا دفاع کرنے والے ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی پاکستان میں جرم دہرایا جاتا ہے۔ جب کسی کو سر عام سزا نہ دی جائے گی تو لوگ عبرت کیسے حاصل کریں گے۔ اب دیکھا جائے تو وہ درندہ صفت لوگ کوئی زیادہ اثرو رسوخ والے بھی نییں ہوتے لیکن ان کے حق میں آواز اٹھا کر بچانے والے اس بات کے ذمہ دار ہیں جو ان درندوں کے ساتھ بھی رحم والا معاملہ کر کے جرم کو تقویت دیتے ہیں

اس لیئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جرم کو عام کرنے کے پیچھے لبرل طبقے کا بھی بہت بڑا رول ہے

اسی طرح منشیات کا دھندہ دیکھا جائے تو وہ چھوٹے پیمانے پر شاید لوگ چھپ چھپا کر کرتے ہوں لیکن بڑے مافیاز کو حکومتی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جو کہ اعلٰی آفسران کو ماہانہ ادائیگی کرتے ہیں اور کھلم کھلا منشیات جیسے نا سور کو معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔ ایسے عناصر پر بھی کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا اور اگر کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جائے تو زر خرید عدالتوں سے شراب کو شہد ثابت کروا کے بری ہو جاتا ہے

انصاف کسی بھی اسلامی ریاست کی بنیادی اکائی ہے جسے بد قسمتی سے پاکستان کی بنیادوں سے مسمار کر دیا گیا۔ اور یوں پاکستان کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک ستون ہی نکال دیا گیا۔ جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیئے جاتے حقیقی تبدیلی کسی صورت نہیں آ سکتی کیونکہ معاشرے مل کر قومیں اور ملک بناتے ہیں جب کی معاشرتی نظام ہی درہم برہم ہوا ہو تو کون سی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے

‎@Z33_6

Leave a reply