انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اپنے ساتھ رشتوں اور تعلق کا ایک سلسلہ لے کر آتا ہے, والدین , بہن بھائی, دادا دادی, نانا نانی, وغیرہ
پر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے تو تعلق کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے جن میں دوست, اسکول فیلوز پارٹنر وغیرہ شامل ہوجاتے ہیں.
کوئی انسان خوش نصیب ہوتا ہے کہ اسکو مخلص اور وفادار دوست مل جاتے ہیں اور کوئی کی زندگی اس نعمت سے خالی ہوتی ہے.
رشتے اور تعلق کے اعتبار سے اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمیں دو طرح کی انتہا ملتی ہیں. ایک انتہا وہ ہے جس میں انسان سب رشتوں سے لاتعلق بن جاتا ہے اور صرف اپنی دنیا بسا لیتا ہے اور دوسری انتہا یہ کہ انسان اپنے دوستوں کو اپنی دنیا سمجھنے لگتا ہے.
یہ دونوں صورتیں ایک انسان کو معیاری زندگی سے دور لے جاتی ہیں.
بعض دفعہ ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے تعلقات کو اپنے رشتوں پہ فوقیت دینے لگتا ہے اور اسطرح اپنے رشتوں سے بےحس ہوجاتا ہے.
وہی رشتے جو پیدا ہوتے ہی اپنے ساتھ لے کے آ یا ہوتا ہے.
ایک مثال دیتی ہوں..
جن بہن بھائیوں کے ساتھ میں کھیل کود کے بڑا ہوا ہوتا ہے, دن میں 50 بار ان سے لڑ جھگڑ کے ایک دوسرے کو مار پیٹ کے) رات کو پھر ایک ساتھ ایک دسترخوان پہ اکٹھے بیٹھے ہوتے ہیں.
ایسی کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے ان رشتوں سے دوری اختیار کرلیتا ہے ؟؟
میرا جانا ایک گھر ہوا وہاں کچھ دیر باتوں باتوں میں پتا چلا کہ چار بہنیں ہیں ایک بھائی ہے ( جو انکو چھوڑ چکا ہے)
اس عورت کی زبانی کے ماں کی وفات بہت پہلے ہوگئی تھی اور بابا نے دوسری شادی نہیں کی ہم بہن بھائی کو پالا.
بھائی سب سے چھوٹا تھا اس لئے بہت لاڈلا بھی تھا. دو بہنوں کی اور بھائی کی شادی ہوگئی ایک دن باپ نے اپنی 3 دکانیں ایک گھر بھائی کے نام کردیا اور بھائی کو بیٹھا کے کہا کہ تمھارا حصہ میں نے اپنی زندگی میں دے دیا ہے اب یہ گھر رہ گیا ہے یہ گھر میری چارو بیٹیو کو دونگا.
یہ سن کے بیٹا غصے میں آ گیا اور کہا کہ بہنوں کو کیوں دوگے یہ بھی میرا ہے..
اس بات پہ باپ بیٹے کی بحث اس حد تک بڑھ گئی کہ بیٹا اپنی بیوی کو لے کے لاہور شفٹ ہوگیا.
باپ کو فالج ہوا اسکی بیماری میں بھی باپ کو ملنے نہ آ یا اور 4 سال تک وہ بستر پر رہا…
اس دوران اسکو بیٹیاں ہی سنبھالتی رہی اور پھر ایک دن باپ فوت ہوگیا باپ کی فوتگی کی خبر بیٹے کو دی گئی مگر وہ باپ کے جنازے کو کندھا دینے تک کو نہ آ یا.

جیسے جیسے وہ عورت داستان سنا رہی تھی کہ آ نسو میری آنکھوں سے نکل رہے تھے اور بار بار ایک ہی سوال میرے زہن میں گونج رہا تھا کہ کیا پیسہ, جائیداد اتنی قیمتی ہوجاتی ہے کہ اپنے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ؟؟؟
یا شاید اس اولاد کی بدقسمتی تھی کہ دنیا میں ہی اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا..
ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی انسان ایک دم اتنا بےحس, بے درد نہیں ہوجاتا جب تک خود اسکے ساتھ ایسا مسلسل نہ ہورہا ہو جو اسکی برداشت سے باہر ہوگیا ہو….
پر میرے خیال میں رشتوں کو برداشت نہیں کیا جاتا انکو نبھایا جاتا ہے اپنا فرض سمجھ کے.
پر جب دُنیاوی محبت انسان پہ حاوی ہو جائے تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا…

لوگوں کے اس جنگل میں ہر طرح کے لوگوں سے آ پکا واسطہ پڑا ہوگا یا پڑ سکتا ہے بعض دفعہ آ پکو ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو بظاہر بڑے نیک, خوش اخلاق ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے..
یاد رکھیں عظیم انسان وہ ہے جو اپنے ساتھ جڑے رشتوں کو کبھی نہیں چھوڑتا .
اور ماں باپ کو تو کبھی بھی نہیں..
خدارا اپنے تعلقات نبھائیے پر اپنے رشتے بھی مت توڑیں..
دنیا کی عیش کی زندگی کی خاطر ان قیمتی رشتوں سے خود کو محروم نہ کریں.
عارضی چیزوں میں سکون تلاش کرنے کی بجائے اللہ کی رضا میں خوش رہنا سیکھیں اللہ کی محبت تمھیں بھٹکنے نہیں دے گی.
اس محبت میں اتنی طاقت ہے کہ اللہ کے ایک حکم پر عمل کرنے کے لیے انسان اس فانی دنیا سے لڑ جاتا ہے وہی کام کرنے لگتا ہے جو اللہ کو پسند ہو جب اسے اللہ کی رضا میں رہنا آ جاتا ہے تو پھر ہر طرف سکون ہی سکون,
دنیا کی محبت دنیا کے تعلقات ایک سائیڈ کرکے اللہ کے بتائے راستے پر چل کے تو دیکھو ہر طرح کی ڈپریشن سے آ زاد ہوجائیں گے
امید ہے یا شاید آ پ میرا پیغام سمجھ گئے ہونگے

Shares: