انسان کا آسمان پہ پہنچنا۔
1400 سال پہلے انسان اتنی اونچائی تک ہی پہنچ سکتا تھا جتنا وہ اچھل سکتا تھا۔ مگر قرآن نے تبھی بتا دیا تھا کہ ایک دن انسان آسمان پہ پہنچ جائے گا۔
Quran 29:22
اور تم زمین اور "آسمان میں” (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتے، اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔
یعنی تم زمین کے ساتھ ساتھ آسمان میں بھی پہنچ جاو گے لیکن وہاں پہنچ کر بھی تم اللہ کی قدرت سے نہیں بچ پاو گے۔
ایک اور جگہ فرمایا
Quran 84:19
کہ تم ایک تہہ سے دوسری تہہ کی سواری کرو گے۔
یہ "Tabak طَبَقٍ” ایک اسم ہے جس کے معنی "پرت یا تہہ” ہے، اور یہ لفظ اڑنے والے قالینوں کے افسانوں سے اخذ کیا گیا ہے،
اور آج ہم جانتے ہیں کہ یہ اڑنے والے ہوائی جہاذ کے متعلق ہے۔ کیونکہ حقیقت میں ایسے قالین موجود ہی نہیں ہیں۔
اس ایک لفظ کے کئی مطلب ہیں
ناون میں اسے لیئر کہا جاتا ہے
جسکا مطلب ہوتا ہے پرت یا تہہ،
اسے اڑتے قالینوں کے افسانوں سے اخذ کیا جاتا ہے،
اس لحاظ سے اسکا اشارہ جہازوں کی اڑتی پرت کی طرف ہوا۔
کیونکہ حقیقت میں اڑنے والے قالین موجود نہیں ہیں
بلکہ جہاز موجود ہیں۔
یہاں اڑتی تہہ کی طرف اشارہ ہے
وہ جہاز بھی ہو سکتے،اآ
اڑتی گاڑیاں بھی ہو سکتیں کیونکہ کہا جاتا ہے کچھ سالوں سے اڑتی گاڑیاں موجود ہوں گی۔
اسکا تیسرا مطلب خلائی جہاز ہیں جو آسمانوں کو چیرتے چلے گئے سپیس میں،
واللہ اعلم
1400 سال پہلے ایک غیر معمولی شخص کیسے جان سکتا تھا کہ انسان آسمانوں پہ پہنچ جائے گا؟؟؟؟؟
بقلم سلطان سکندر!!!