ویسے توبحیثت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اللہ جس نے یہ دنیا بنائی ہے ہمیں پیدا کیا ہے اور ہمارا مالک ہے ہماری زندگی اور موت کا فیصلہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک اس کا حکم نہ ہوکسی جاندار کو موت نہیں آسکتی اور موت کا جب وقت لکھا ہو تو اس کو اللہ کے علاوہ کوئی ٹال نہیں سکتا۔۔۔لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایک کارٹل مافیا ایسا بھی ہے جو کہ انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ انسانوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں میں ہے۔ یہ مافیا طے کرتا ہے کہ اگر ایک بار کوئی بیماری انسان کو ہو جائے تو اس کے بعد کیسے انسان کو مرتے دم تک دوائیوں کے چنگل میں پھنسا کر رکھنا ہے۔

یہ کارٹل کیسے کام کرتا ہے؟میں نے آپ کو ایک ویڈیو میں الیکٹرک بلب اور مشینری بنانے والے کارٹل کے بارے میں بتایا تھا کہ کیسے جان بوجھ کر ایسیElectronic machinesبنائی جاتی ہیں جو کہ چند سال بعد خود بخود Expireہو جاتی ہیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں اور اس کے بعد ہمیں مجبور ہو کر اس مشین کو پھینکنا پڑتا ہے اور نئی مشین خریدنی پڑتی ہے۔ اور اب جس فارما کارٹل کے بارے میں۔۔ میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ یہی کام انسانوں کے ساتھ کررہے ہیں ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ چند ادویات اور ویکسینز بنانے والی کمپنیاں اب یہ طے کر رہی ہیں کہ دنیا میں کتنے فیصد لوگوں کو زندہ رہنا چاہیے اور کتنے فیصد لوگوں کو مر جانا چاہیے۔ جس کی وجہ سے یہ کارٹل خطرناک حد تک پاورفل ہو چکا ہے کہ حکومتیں بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہیں۔اب میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ فارما کارٹل کیسے یہ سب کر رہا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟اور یہ آنے والے وقت میں عام انسانوں کے لئے کس حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں؟اور کوئی بھی حکومتیں اب تک ان کو کنٹرول کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ سب سے پہلے امریکہ کی ایک مثال سے شروع کرتے ہیں۔ امریکہ میں ایک شخص ہے جس کا نام Martin Shkreliہے۔ یہ Vyera Pharmaceuticals LLCکا سی ای او رہا ہے اس کے علاوہ اس نے Bio technology company Ritrofinبنائی۔ یہ Toring Pharmaceuticalsکا بھی مالک ہے لیکن اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ He used to be America’s most hated manاب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک دوائیاں بنانے والی کمپنی کے مالک نے ایسا کیا کیا کہ لوگوں کو اس سے نفرت ہو گئی۔دراصل ایک دوائی ہے Daraprimجو کہ ملیریا کے علاج کے لئے بہت اہم ہے۔ ایک وقت تھا جب اس دوائی کی قیمت 13.50$تھی۔ اب ہوا یہ کہMartin shkreliکی کمپنی نے یہ دوائی بنانے کا لائسنس حاصل کیا اور اس دوائی کی قیمت کو پانچ ہزار گنا تک بڑھا کر 750$کردیا۔ جس پر ڈاکٹرز، Law makersاور عام انسان سب کو بہت زیادہ تشویش ہوئی اور اس کے خلاف امریکہ میں احتجاج شروع ہو گیا۔ آخر قانون حرکت میں آیا اس شخص کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور اسے سات سال کی جیل ہوئی۔ لیکن حال ہی میں اس نے 40 million dollarsادا کرکے اپنے اوپر لگے Allegationsکو Settleکرلیا ہے۔

اس کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے عام ادویات بنانے والوں کے ساتھ غیر قانونی معاہدے کر رکھے ہیں تاکہ ادویات کی قیمت میں اضافے کے بعد دوائی کے سستے ورژن کو مارکیٹ میں لانے میں دیر کی جا سکے اور لوگوں کو مجبورا مہنگی دوائی خریدنی پڑے۔اور جب میڈیا کی جانب سے اس شخص سے قیمتیں بڑھانے پر سوالات کئے گئے تو ان کے جواب میں بھی اس نے صاف صاف کہا کہ میں قیمتوں میں ضرور اضافہ کروں گا تاکہ میں منافع کما سکوں۔اوریہ
Martin shkreliتو صرف ایک مثال ہے اصل میں فارما انڈسٹری کا پورا نظام ہی اسی طرح سے کام کرتا ہے۔ ان کا کام لوگوں کی بیماریوں سے فائدہ اٹھا کر منافع کمانا ہے۔ اور یہ وہ انڈسٹری ہے جس کا واسطہ ہر ایک انسان سے ہے وہ چاہے امیر ہو یا غریب۔۔ انسان کی عمر کوئی بھی ہو اس انڈسٹری سے واسطہ پڑنا لازمی ہے۔ اس لئے یہ فارما کمپنیاں اب اتنی طاقتور ہو چکی ہیں کہ حکومتوں کے لئے بھی ان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ یہ سب سے پہلے ڈاکٹرز کو اپنے شکنجے میں لیتی ہیں ان کو مراعات دیتی ہیں اور جب ایک ڈاکٹر مریض کو یہ کہتا ہے کہ یہ دوا استعمال کرکے آپ کی جان بچ سکتی ہے تو اس انسان پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ان ادویات کا استعمال کرے اس طرح یہ کپمنیاں ڈاکٹرز کے زریعے اپنی ادویات بکواتی ہیں۔ اپنی ادویات کی افادیت کے بارے میں اچھی اچھی خبریں چلواتی ہیں جس سے عام انسان کو لگتا ہے کہ بس اب اس کی زندگی انہیں دوائیوں کے سہارے چل سکتی ہے جس کے بعد وہ اس شکنجے میں ایسا پھنستا ہے کہ مرنے کے بعد ہی اسے ان سے نجات ملتی ہے۔اس کی بہترین مثالOpioidsکی ہے جو کہ ایک Pain killerہے اور اس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ہیروئین کی طرح کام کرتی ہیں یہ آپ کی تکلیف کو دور نہیں کرتی بلکہ آپ کے محسوس کرنے کی حس کو بلاک کرتی ہے جس سے صرف آپ کو محسوس ہونا بند ہو جاتا ہے کہ آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔ شروع میں امریکہ میں اس بات پر خاصCheck and balanceرکھا جاتا تھا کہ یہ Pain killersلوگوں کو ضرورت سے زیادہ Prescribed
نہ کی جائے۔ لیکن 1990کے بعد ان بڑی فارما کمپنیوں نے یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ یہ Addictiveنہیں ہیں۔ ایک بڑی امریکی فارما کمپنی Purdue pharmaجس کی Opioid drug کا نام OxyContinتھا انہوں نے اپنے Salerepresentatives
پورے امریکہ میں پھیلا دئیے جو صرف ڈاکٹرز کے پاس جاتے اور ان کو اس بات پر Convinceکرتے کہ یہPain killers
نقصان دہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو استعمال کرنے سے کوئی Addictionہوتی ہے جبکہ اس دعوے کو کبھی کسی ڈاکٹر یا ریسرچر نے کراس چیک نہیں کیا کہ اس میں کتنی صداقت ہے صرف کمپنی کی جانب سے بھیجے گئے Sale representatives کی بات پر ہی یقین کر لیا گیا اور 1997میں جہاں اس دوائی کے 670,000 prescription لکھے جا رہے تھے ان کی تعداد 2002تک بڑھ کر 6.2 millionتک پہنچ گئی۔ یعنی اس میں دس گنا سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔ اور اس طرح صرف اس ایک دوائی سے Purdue pharma نے30 billion dollarsکا منافع کمایا۔Purdue pharmaکے علاوہ Johnsons & johnsonsاورTevaکمپنی کی Pain killersنے جو منافع کمایا وہ الگ تھا۔ اور آہستہ آہستہ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ
2012تک ایک سال میں صرف امریکہ میں 255 millionPrescriptionsمیں یہ دوائیاں لکھ کر مریضوں کو دی گئیں۔ جس کا رزلٹ یہ ہوا کہ ہزاروں لوگ کو اس کی لت پڑ گئی وہ اس کے Addictہو گئے۔ اور انہوں نے ضرورت سے زیادہ اس کا استعمال شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ Over doseکی وجہ سے1999سے2016کے درمیان453,300امریکی ان گولیوں کے استعمال کی وجہ سے مارے گئے۔

2019میں 71000لوگوں کی Opioids drug کےOver doseکی وجہ سے ڈیتھ ہوئی۔ اور جب لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہوا تو انہوں نے Purdue pharmaپر Law suit fileکرنا شروع کر دئیے۔ لیکن کمپنی نے اپنے اکاونٹ سے 10.8 billion dollars shiftکرکے اس کو دیوالیہ ڈکلئیر کر دیا گیا اور کمپنی مالکان نے صرف 4.5 billion dollarجرمانے کی رقم ادا کرکے اپنی جان چھڑا لی اور اتنے بڑے ظلم کے باوجود ان کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی صرف جرمانہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔
اور صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ یہ فارما کارٹل اتنے مضبوط ہیں کہ وہ کسی بیماری کے علاج کے لئے ایسی ادویات بھی ریگولیٹری اتھارٹیز سے Approveکروا لیتے ہیں جو کہ علاج میں اتنی زیادہ کارآمد بھی نہیں ہوتیں۔ اور بغیر ٹیسٹ کے یہ دوائیں نہ صرف پاس ہو جاتیں ہیں بلکہ سیل بھی ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔Bioginکمپنی کی دوا Aduhelmاس کی بہترین مثال ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ Alzhimer کے علاج کے لئے بہترین ہے لیکن جب کچھ عرصے بعد اس پر ریسرچ کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ وہ کمیٹی جس کے سامنے اس دوا کو Approvalکے لئے پیش کیا گیا تھا اس کے گیارہ ممبر تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس کو پاس کرنے کے حق میں نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ دوا پاس ہو گئی جس کے بعد اس کمیٹی کے تین ممبرز نے احتجاجا اس کمیٹی سے استعفی بھی دے دیا تھا۔اور جب اس معاملے کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایف ڈی اے جو کہ ان فارما کمپنیوں کے لئے Watch dogکا کام کرتی ہے اس کے کل بجٹ کا 45%حصہ انہیں فارما کمپنیوں کی فنڈنگ سے آتا ہے جس کی وجہ سے ان کو ایف ڈی اے میں اتنا اثر و رسوخ ہے کہ کمیٹی کے انکار کے باوجود کوئی مشکل نہیں کہ وہ اپنی ادویات کو آسانی کے ساتھApproveکروا سکتیں ہیں۔ اور یہ سب سامنے آجانے کے بعد بھی ابھی تک امریکہ میں یہی سسٹم چل رہا ہے کیونکہ ان فارما کمپنیوں کا اثرورسوخ صرف ایف ڈی اے تک نہیں ہے بلکہ امریکی
Lawmakerتک بھی ہے جو ان کی مرضی کے خلاف کوئی قانون نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ امریکی سیاستدانوں کی الیکشن کمپئین کو بھی یہ فارما کمپنیاں سپانسر کرتی ہیں۔2020میں ہونے والے امریکی الیکشن میں ان کمپنیوں کی طرف سے گیارہ ملین ڈالر کی فنڈنگ کی گئی تھی۔ اور اس سے بھی کہیں زیادہ رقم یہ کمپنیاں اپنی لابنگ پرخرچ کرتی ہیں۔ لیکن اپنی فنڈنگ اور لابنگ کی وجہ سے یہ کمپنیاں اتنی آزاد ہیں کہ یہ اپنی ادویات کی قیمتوں کا تعین خود کرتی ہیں ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔

اور یہ وہ تمام ہتھکنڈے ہیں جن کے تحت یہ فارما کارٹل کام کرتا ہے۔ یہ جس بیماری کا علاج چاہیں سستا کر دیں اور جس بیماری کا چاہیں علاج اتنا مہنگا کر دیں کہ کوئی عام انسان وہ علاج کروا ہی نہ سکے۔ اورایک عام غریب انسان اگر دوائی مہنگی ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر مر بھی رہا ہے تو ان کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ ان کا کام منافع کمانا ہے۔ اب پچھلے دو سالوں میں جو کچھ ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ کرونا آنے کے بعد کس تیزی کے ساتھ مختلف کمپنیاں اس کی ویکسین بنانے میں مصروف ہو گئیں اور دنیا میں شاید ہی کسی بیماری کی ویکسین اتنے کم عرصے میں بنی ہو گی جتنے کم ٹائم میں کرونا کی ویکسین تیار کر لی گئی اور پھر حکومتوں کو استعمال کرتے ہوئے بڑی چالاکی کے ساتھ ان فارما کمپنیوں نے یہ لازمی کروا لیا کہ ہر ایک انسان کو یہ ویکسین لگوائی جائے پہلے اس کی ایک ڈوز لگائی گئی پھر دوسری۔۔۔ لیکن اب جس طرح سے اومی کرون کے کیسز بڑھ رہے ہیں تو اس سے بچاو کے لئے جو لوگ پہلے ویکسین لگوا چکے ہیں ان کو اب بوسٹر شاٹس لگائے جا رہے ہیں اور یہاں تک بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر ہمیں خود کو کرونا وائرس اور اس کی مختلف اقسام سے بچانا ہے تو ایک مختصر وقفے کے بعد مستقل بنیادوں پر یہ بوسٹر شاٹس ہمیں باقاعدگی سے لگوانے ہوں گے۔ اور اس کے بدلے میں ہو یہ رہا ہے کہ ان فارما کمپنیوں کا کاروبار بڑھ رہا ہے یہ کمپنیاں پیسہ بنا رہی ہیں۔ دولت کی ایک غیر منصفانہ تقسیم ہو رہی ہے یہ اپنی ہر طرح کی شرائط حکومتوں سے منوا رہی ہیں۔ اپنی مرضی کی پالیسیاں لاگو کروانے کے لئے یہ کمپنیاںSecret dealsتک کر رہی ہیں لیکن ایک عام انسان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ اس فارما کارٹل سے۔۔۔ انہیں کی شرائط پر۔۔۔ ان کی ادویات اور ویکسینز خریدیں اور استعمال کریں۔ یہ وہ اصل طاقت ہے جو یہ کمپنیاں حاصل کر چکی ہیں جس کے زریعے اب یہ لوگوں کی زندگیوں اور موت کا فیصلہ کر رہی ہیں۔ اور یہ کسی ایک ملک میں نہیں ہو رہا بلکہ ہرایک ملک میں اس کارٹل کی جڑیں خطرناک حد تک مضبوط ہو چکی ہیں

Shares: