نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
انشا اللہ خان انشاء
یکم دسمبر 1257 یوم پیدائش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میر تقی میر کے ہم عصر ، مصحفی کے ساتھ چشمک کے لئے مشہور انشا نے نثر میں ’رانی کیتکی کی کہانی‘ بھی لکھی.جس میں عربی فارسی کا ایک بھی لفظ استعمال نہیں ہوا
وہ کہتے تھے’’ہرلفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا، عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی ازروئے اصل غلط ہو یا صحیح وہ لفظ اردوکا لفظ ہے۔ اگراصل کے مطابق مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے اور خلاف اصل مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے ۔‘‘
محمد حسین آزاد نے انشا کو اردو کا امیر خسرو کہا ۔ انکا سب سے بڑا کارنامہ کسی ہندوستانی کی لکھی ہوئی اردو گرامر کی اولین کتاب "دریائے لطافت” ہے جو قواعد کی عام کتابوں کی طرح خشک اور بے مزا نہیں کسی ناول کی طرح پر لطف ہے جس میں مختلف کردار اپنی اپنی بولیاں بولتے سنائی دیتے ہیں۔
انھوں نے اردو میں "سلک گوہر” لکھی جس میں ایک بھی نقطہ نہیں ہے۔ انھوں نے ایسا قصیدہ لکھا جس میں پورے کے پورے مصرعے عربی، فارسی، ترکی، پشتو، پنجابی، انگریزی، فرانسیسی، پوربی اور اس زمانہ کی تمام قابل ذکر زبانوں میں ہیں۔ ایسی سنگلاخ زمینوں میں غزلیں لکھیں کہ حریف منہ چھپاتے پھرے۔ ایسے شعر کہے جن کو معنی کے اختلاف کے بغیر، اردو کے علاوہ، محض نقطوں کی تبدیلی کے بعد عربی فارسی اور ہندی میں پڑھا جا سکتا ہے یا ایسے شعر جن کا ایک مصرع غیر منقوط اور دوسرے مصرعے کے تمام الفاظ منقوط ہیں۔ اپنے اشعار میں صنعتوں کے انبار لگا دینا انشاء کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
انشاء یکم دسمبر 1752ء کو مرشدآباد میں پیدا ہوئے۔ خاندان نجف اشرف سے اور بعض دوسری روایات کے مطابق سمرقند سے ہجرت کرکے دہلی میں آباد ہوا تھا اور طبابت میں اپنی غیرمعمولی صلاحیت کی بنا پر دربار شاہی سے منسلک تھا۔ انشاء کے والد سید ماشاءللہ دہلی کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوے مرشدآباد چلے گئے تھے. بنگال کے حالات بھی خراب ہوئے تو انشا فیض آباد جاکر کم عمری کے باوجود شجاع الدولہ کے مصاحب ہوگئے۔ شجاع الدولہ کی وفات کےبعد وہ نجف خان کے لشکر میں شامل ہوکر بندیل کھنڈ میں جاٹوں کے خلاف لڑے بھی۔ اس کے بعد وہ نجف خان کے ساتھ دہلی آ گئے۔
انشاء کو دربار تک رسائی ملی اور وہ اپنی طراری، اور بھانڈ پن کی حد تک پہنچی ہوئی مسخرگی کی بدولت شاہ عالم کی آنکھ کا تارہ بن گئے ۔ ان کو اپنی بقاء کے لئے ایک مسخرے مصاحب کا کردار ادا کرنا پڑا جس نے بعد میں، ضرورت کی جگہ، عادت کی شکل اختیار کرلی۔ جب انشاء دہلی پہنچے، بڑے بڑے شاعر، سودا، میر، جرات، سوز وغیرہ دہلی کو چھوڑ کر عیش و نشاط کے نو دریافت جزیرے لکھنؤ کا رخ کر چکے تھے اور چھٹ بھیّے بزعم خود خاتم الشعراء بنے ہوئے تھے۔ یہ لوگ انشاء کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ایسے میں لازم تھا کہ انشاء ان کو ان کی اوقات بتائیں۔ اور یہیں سے انشاء کی ادبی معرکہ آرائیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ انشاء کو اپنے سامنے سر اٹھانے والے کسی بھی شخص کو دو چار زور دار پٹخنیاں دئیے بغیر چین نہیں آیا۔
دہلی میں انشاء کا پہلا معرکہ مرزا عظیم بیگ سے ہوا۔ ان کی علمی لیاقت بہت معمولی تھی سودا کے شاگرد ہونے کے مدعی اور خود کو صائب کا ہم مرتبہ سمجھتے تھے۔ انشاء کی روش عام سے ہٹی ہوئی شاعری کے نکتہ چینوں میں یہ پیش پیش تھے اور اپنے مقطعوں میں سودا پر چوٹیں کرتے تھے۔ ایک دن وہ انشاء سے ملنے آئے اور اپنی ایک غزل سنائی جو بحر رجز میں تھی لیکن کم علمی کے سبب اس کے کچھ شعر بحر رمل میں چلے گئے تھے۔ انشاء بھی موجود تھے۔ انھوں نے طے کیا کہ حضرت کو مزا چکھانا چاہئے۔ غزل کی بہت تعریف کی مکرر پڑھوایا اور اصرار کیا کہ اس غزل کو وہ مشاعرہ میں ضرور پڑھیں۔ عظیم بیگ ان کے پھندے میں آ گئے۔ اور جب انھوں نے مشاعرہ میں غزل پڑھی تو انشاء نے بھرے مشاعرہ میں ان سے غزل کی تقطیع کی فرمائش کر دی۔ مشاعرہ میں سب کو سانپ سونگھ گیا۔ انشاء یہیں نہیں رکے بلکہ دوسروں کی عبرت کے لئے اک مخمس بھی سنا دیا۔
گر تو مشاعرہ میں صبا آج کل چلے
کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے
اتنا بھی اپنی حد سے نہ باہر نکل چلے
پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے
بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے
عظیم بیگ اپنے زخم چاٹتے ہوئے مشاعرہ سے رخصت ہوئے اور اپنی جھینپ مٹانے کے لئے جوابی مخمس لکھا جس میں انشاء کو جی بھر کے برا بھلا کہا اور دعویٰ کیا کہ بحر کی تبدیلی نادانستہ نہیں تھی بلکہ شعوری تھی جس کا رمز ان کے مطابق کل کے چھوکرے نہیں سمجھ سکتے۔
موزونی و معانی میں پایا نہ تم نے فرق
تبدیل بحر سے ہوئے بحر خوشی میں غرق
روشن ہے مثل مہر یہ از غرب تا بہ شرق
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
( آخری مصرع ماقبل کے مصرع میں تحریف کے ساتھ شعر "گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں۔ وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے” کی شکل میں مشہور ہو گیا)
اگلی بار جو مشاعرہ ہوا وہ ایک خطرناک معرکہ تھا ۔ انشاء اپنی فخریہ غزل
اک طفل دبستاں ہے فلاطوں مرے آگے
کیا منہ ہے ارسطوجو کرے چوں مرے آگے
لے کر گئے۔ اس معرکہ میں جیت انشاء کی ضرور ہوئی لیکن ان کی مخالفت بہت بڑھ گئی۔ دہلی کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے ۔ دربار سے بھی ان کا دل اچاٹ ہو گیا۔ قسمت آزمائی کےلئے لکھنؤ کی راہ لی۔ آتے ہی وہاں کے مشاعروں میں دھوم مچائی. کچھ دن میں شاہ عالم کے بیٹے سلیمان شکوہ کے ملازم ہو گئے۔ سلیمان شکوہ، انشاء سے اصلاح لینے لگے۔ ان دنوں لکھنؤ میں شاعری کی اک نئی بساط بچھ رہی تھی جسے بعد میں دبستان لکھنؤ کا نام دیا گیا۔ انشاءکے علاوہ، جرات، رنگین، راغب وغیرہ ایک سےبڑھ کر ایک تماشے دکھا رہے تھے۔ سنگلاخ زمینوں میں استادی دکھانے اور چوما چاٹی کے مضامین کو ابتذال کے دہانے تک لے جانے کی اک ہوڑ لگی تھی۔
آصف الدولہ کے بعد جب سعادت علی خان نے حکومت سنبھالی تو انشاء للہ بہت دنوں بعد کسی طرح ان کے دربار میں پہنچ تو گئے لیکن ان کا رول بس دل بہلانے والے اک مسخرے کا سا تھا۔ نواب کو جب کسی کی پگڑی اچھالنی ہوتی انشاء کو اس کے پیچھے لگا دیتے۔ انشاء کی آخری عمر بڑی بیکسی میں گزری ہنسی ہنسی میں کہی گئی انشاء کی کچھ باتوں سے نواب کے دل میں گرہ پڑ گئی اور وہ معتوب ہو گئے۔ اور زندگی کے باقی دن مفلسی کسمپرسی اور بیچارگی میں گزارے۔
انشاء کی تمام شاعری میں جو صفت مشترک ہے وہ یہ کہ ان کا کلام متوجہ اور محظوظ کرتا ہے۔
منتخب اشعار :
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
کہانی ایک سنائی جو ہیر رانجھا کی
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعل بد تو ان سے ہولعنت کریں شیطان پر
لے کے میں اوڑوں، بچھاؤں یا لپیٹوں کیا کروں
روکھی پھیکی ایسی سوکھی مہربانی آپ کی
تب سے عاشق ہیں ہم اے طفل پری وش تیرے
جب سے مکتب میں تو کہتا تھا الف بے تے ثے
یاد آتا ہے وہ حرفوں کا اٹھانا اب تک
جیم کے پیٹ میں ایک نکتہ ہے اور خالی حے
گالیاں تیری ہی سنتا ہے اب انشاؔ ورنہ
کس کی طاقت ہے الف سے جو کہے اس کو بے
میاں چشمِ جادو پہ اتنا گھمنڈ
خدوخال و گیسو پہ اتنا گھمنڈ
دیوار پھاندنے میں دیکھوگے کام میرا
جب دھم سے آکہوں گاصاحب سلام میرا
( ریختہ سے استفادہ)