انتہا پسند ہندوؤں کا مسجد میں گھس کر نمازیوں پر تشدد

0
53

انتہا پسند ہندوؤں کا مسجد میں گھس کر نمازیوں پر تشدد
باغی ٹی وی :بھارتی ریاست تلنگانہ کے شاشتری نگر میں مودی کے دہشت گردوں نے نمازی تراویح‌ ادر کرتے ہوئے مسلمانوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں انہیں شدید زخمی کردیا گیا . ان میں‌سے ایک مسلمان کی حالت غیر ہوگئی اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے.اطلاعات کے مطابق وہ مسلمان جان کی بازی ہار چکا ہے.
یا د رہے کہ بھارتی حکومت نے کورونا کے نام پر مسلمانوں کو تنگ کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس حوالے سے دارالحکومت نئی دہلی میں حضرت نظام الدین اولیا کے دربار سے قرنطینہ سنٹر منتقل کئے گئے کئی افراد نے کھل کر احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔قرنطینہ کے نام پر تبلیغی جماعت کے اراکین کومارچ سے یہاں مختلف سنٹرز میں قید کررکھاگیا ہے۔ بھارتی شہر میرٹھ کے رہنے والے دو دوست محمد بابر اور محمدایاز 12ویں کا بورڈ امتحان دیکر تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل ہونے کے لیے 18 مارچ کو دہلی گئے تھے۔ان کی رہائش نظام الدین کے دربار پر ہی تھی جہاں کچھ ہی دن بعد کو رونا انفیکشن پھیلنے کاانکشاف ہوا اور جماعت کے دوسرے لوگوں کی طرح ان دونوں دوستوں کو بھی دہلی کے نریلا کورنٹائن سینٹر میں منتقل کر دیا گیا۔

انہیں یہاں آئے تقریباً 40 دن ہو گئے ہیں اور انہوں نے کورنٹائن میں رہنے کی مدت بھی پوری کر لی ہے، لیکن ابھی تک انہیں اپنے گھروں کو جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔بابر بتاتے ہیں کہ ان کا دو بار کو رونا کا ٹیسٹ کیا جا چکا ہے اور دونوں بار میری رپورٹ نگیٹو آئی ہے۔اس کے باوجودا نہیں واپس نہیں جانے دیا جا رہا۔ جب انتظامیہ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں کب جانے دیں گے تو جواب ملتا ہے کہ بس کچھ دن اور رک جاؤ پھر چلے جانا۔یہ بے بسی صرف بابر کی ہی نہیں ہے، بلکہ یہاں لائے گئے جماعت کے کئی لوگوں نے الزام لگایاہے کہ ان کی ٹیسٹ رپورٹ نگیٹو آنے کے باوجود انہیں یہاں سے جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔دہلی ڈویلپمنٹ تھارٹی کی اس 14 منزلہ عمارت کے فلیٹوں میں تبلیغی جماعت کے کل 932 لوگوں کو کورنٹائن کیا گیا ہے۔ ایک فلیٹ میں دو لوگ رہ رہے ہیں، جہاں دو کمرے اور ایک باتھ روم ہیں۔اس بلڈنگ کو تین بلاک اے، بی اور سی میں بانٹا گیا ہے، جہاں اے اور سی میں کورونانگیٹو لوگ ہیں اور بی بلاک میں پازیٹو، جن کی تعداد 472 ہے۔اٹھارہ سالہ بابر کہتے ہیں آپ ہی ذرا سوچئے کہ اگر ایک کمرے میں آپ کو ایک مہینے سے زیادہ وقت کے لیے بند کر دیا جائے تو کیا حالت ہوگی۔ ہمیں یہاں اخبار وغیرہ بھی نہیں ملتا ہے۔ ٹی وی بھی نہیں ہے۔ دین کی کتابوں کے سہارے دن کاٹ رہے ہیں۔بابر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کئی لوگوں کے فون آتے رہتے ہیں،

وہ بڑی بدتمیزی سے بات کرتے ہیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کن لفظوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ہماری کیا غلطی ہے۔ مجھے پتہ بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے، نہیں تو میں آتا ہی نہیں۔ اتراکھنڈ سے 34 لوگ جماعت کے اجتماع میں شامل ہونے آئے تھے۔ ان میں 31 سالہ محمد حسیب میکینکل انجینئر ہیں اور روڑکی کے بھگوان پور تحصیل میں ایک کوچنگ سینٹر چلاتے ہیں۔اس وقت وہ بھی نریلا کورنٹائن سینٹر میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں یہاں 31 مارچ کو لایا گیا تھا۔ میری کو رونا رپورٹ نگیٹو ہے۔ صرف میں ہی نہیں، میرے اس بلاک میں 280 لوگ ہیں اور سبھی کی رپورٹ نگیٹو آئی ہے۔حسیب نے بتایا کہ ابھی صاف نہیں ہے کہ کب تک انہیں چھوڑا جائیگا۔وہ کہتے ہیں پہلے تو ہمیں یہاں یہ بول کر لایا گیا تھا کہ 14 دن رکھا جائیگا۔ بعد میں کہا کہ حکومت نے مدت بڑھاکر 28 دن کر دی ہے۔ اب وہ ٹائم بھی پورا ہو گیا ہے، تب بھی پتہ نہیں چل رہا کہ کب جانے دیں گے۔ اسٹاف کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ڈسچارج پیپر بنائے جا رہے ہیں، اس میں وقت لگے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اتنے دن بیت جانے کے بعد بھی انہیں نہ چھوڑنے کی وجہ سے ان کے گھر والے کافی پریشان ہیں۔ انہوں نے کہاہم ایک بارقرنطینہ سنٹر کی کھڑکی سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو کنٹرولر نے ڈانٹ دیا اور کہاکہ بند کرو اسے باہر نہیں دیکھنا ہے۔ اب کیا کریں، اسی حالت میں رہنا ہے یہاں۔ حسیب کا کہنا ہے کہ اسٹاف کاسلوک بھی اچھا رہا ہے۔ لیکن ان کی ٹیسٹنگ رپورٹ ابھی تک نہیں دی گئی ہے۔

صرف بتا دیا گیا ہے کہ رپورٹ نگیٹو آئی۔تامل ناڈومیں ترچی کے رہنے والے 44 سالہ محمد حنیفہ کپڑے کے ایک دکان میں کام کرتے ہیں اور 19 مارچ کو اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ جماعت کے اجتماؑع میں شامل ہونے دہلی آئے تھے، لیکن مرکز میں کو رونا انفیکشن کی وجہ سے انہیں بھی کورنٹائن سینٹر آنا پڑا۔وہ بتاتے ہیں ہم سب کی رپورٹ نگیٹو آئی ہے۔ گھر پر ان کی بیوی اور ایک بیٹا ہے بے حد پریشان ہیں۔اس سینٹر میں موجود دہلی حکومت کے ایک اہلکار نے نام نہ لکھنے کی شرط پر بتایایہاں کورنٹائن کئے گئے این آر آئی اور غیر ملکی لوگوں کو مدت ختم ہوتے ہی گھر بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن تبلیغی جماعت کے مسلمانوں کوابھی تک جانے نہیں دیا گیا ہے

Leave a reply