بلوچستان میں سب سے بڑی دہشتگرد تنظمیں دو ہیں۔ بی ایل اے اور بی ایل ایف۔ دونوں کے کمانڈروں سے لے کر نیچے لڑنے والوں تک سب کو افرادی قوت بی ایس او فراہم کرتی ہے جو بلوچ طلباء کی تنظیم ہے اور تمام سرخے ہیں۔ یعنی مارکسسٹ۔۔ آپ نے دیکھا ہوگا ۔۔ BLA گروہ کا کوئی مرتا ہے یا سیکورٹی فورسز پر حملہ کرتے ہوئے یا ایف سی جوانوں کے ہاتھوں جہنم واصل ہونے والا دہشتگرد جب مارا جاتا ہے تو پچھلے کچھ عرصے سے بعد تحقیقات کے پتہ چلا کہ ان دہشتگردوں کا تعلق ہماری ہی کچھ یونیورسٹیوں سے ہوتا ہے جن میں خاص کر ایک اہم یونیورسٹی کے ذہین طلباء شامل ہوتے ہیں ۔وہ یونیورسٹی اس وقت مارکسزم کی نمبر ون پرچارک بلکہ آماجگاہ بن چکی ہے۔ یوں کہ لیں۔ کسی دن یہ یونیورسٹی دوسری لال مسجد بن جائے گی.اسی یونیورسٹی کے پچاس اساتذہ کو پکڑا جائے تحقیقات کی جاے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یونیورسٹی میں طلبہ کے دماغوں میں جو زہر بھرا جارہا ہے وہ کیسے اور کون بھرتا ہے ۔۔
PTM TTP یہ سب نام کے conservative ہیں اصل میں یہ بھی اسی ایجنڈا کو پروموٹ کرتے ہیں جس کو لبریز پروموٹ کرتے ہیں وہ واحد ایجنڈا پاکستان مخالف اسلام مخالف ایجنڈا ہے۔پاکستانی وراثت روایت مخالف ایجنڈا ہے ۔ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ بھی اسی تنظیم سے نکلا تھا ۔پاکستان میں بڑی یونیورسٹیوں اور طلباء تنظمیوں پر انہی سرخوں کا کنٹرول ہے جو طلباٰء کی بڑی تعداد کو اسلام اور پاکستان سے متنفر کر چکے ہیں۔۔جب تک ان یونیورسٹیوں کی اصلاح نہیں کی جاتی یہ جنگ ختم نہیں ہوسکتی
بی ایل اے اور بی ایس او اب تک بلوچستان سے میں چار ہزار سے زائد دہشتگردانہ حملے کر چکی ہے۔۔۔کریمہ بلوچ اسی بی ایس او کی چئیرمین تھیں اور بی ایس او کو پاکستان کلعدم قرار دے چکا ہے۔۔۔کل بھوشن نے بھی یہی کہا تھا کہ وہ طلباء تنظیموں کی مدد سے اپنی دہشتگردی کے نیٹورکس چلاتا رہا۔۔بلوچستان میں 1972/1973 میں جن کے خلاف آپریشن ہوا تھا وہ لوگ یعنی مری اور مینگل یہ سب مارکسزم اور کیمونزم کے حامی تھے۔ یہ لوگ خود پڑھے لکھے ہوتے لیکن اپنے نیچے کسی کو پڑھنے نہیں دیتے اور انکو پھر ریاست کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔۔۔محرومی کے مارے طلباء کو پیسوں کا بہت پیسوں کا لالچ دے کر ۔اور کچھ کرنے کا جذبہ رکھنے والے ذہین طلباء کو ہی یہ اکساتے ہیں ۔اساتذہ کے زریعے ایسے بچوں کا برین واش کرتے ہیں ۔
سننے میں آیا ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ جان بوجھ کر ایسے موضوعات پر بحث کرتے ہیں جو شدت پسندی انتشار پسندی کی طرف جاے ۔۔ہر انتشار پسندی ہر لبرزم کا کیڑہ اسی یونیورسٹی سے کیوں نکلتا ہے ۔۔وہ طلباء یکجہتی ہو یا نقیب اللہ کے قتل پر طلباء کو ملا کر ساتھ احتجاج کر کہ بننے والی جماعت پی ٹی ایم ہی ہو یا لال لال لہراے گا نعرے والے سرخے ہوں ۔۔سب کا تعلق اسی گروہ سے نکلتا ہے ۔۔۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاست ان کی چال بازوں سے واقف نہیں ۔لیکن یہ ان کی بھول ہے ۔۔ریاست اگر ان کو کھلا چھوڑتی ہے تو اس لیے نہیں کہ ریاست ان کی سازشوں سے انجان ہو ۔۔بلکہ اس لیے کہ یہ اپنی موت اپنے مرتے ہیں ۔
۔دنیا کے سامنے یہ ملک دشمنوں سے فنڈ لیکر ریاست کو بدنام کرتے کرتے خود بے نقاب بھی ہوتے ہیں۔اور ننگا بھی کہ دنیا ان کی اصلیت جان جانتی ہے کہ یہ پیسے پہ بکنے والا گروہ جو اپنے ملک کا وفادار نہیں ۔وہ ہمارا کیسے ہو سکتا ۔۔تبھی ان کا حال کریمہ بلوچ کی طرح ہوتا ہے دنیا کے کسی کونے چلے جائیں یہ لوگ ۔۔ان کو استعمال کرنے والے خود ہی ان کا سر کچل دیتے ہیں
حناء سرور
۔
Article Writer Name
Hina