مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5اگست کو موبائل اور انٹرنیٹ کی سروس بند کرنے، ریڈیو اور سیٹلائٹ ٹی وی پر بھی پابندی، سیاحوں کو ریاست سے باہر جانے اور سیاسی لیڈروں کو گرفتار یا نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ کس نے دیا، بھارتی وزارت داخلہ کے پاس اس حوالے سے کوئی اطلاعات نہیں ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کتنے ہزار اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں؟ اہم خبر
بھارتی میڈیا نے وزارت داخلہ کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کے پاس گرفتار کئے گئے لیڈروں کے نہ تو نام ہیں اور نہ ہی ان کی جیل کے بارے کوئی خبر ہے کہ انھیں کہاں رکھا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے یہ باتیں ایک آر ٹی آئی میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہیں، اور ساتھ ہی اس سلسلے میں جموں و کشمیر انتظامیہ سے رابطہ قائم کرنے کا مشورہ بھی دے دیا۔
ایک آر ٹی آئی کارکن نے وزارت کو درخواست دی تھی اور اس بارے میں جاری ہدایات و احکامات یا صلاح و مشورے کی کاپی طلب کی تھی۔ وزارت داخلہ کے مقبوضہ جموں و کشمیر ڈویژن کے دو مرکزی پی آئی او نے کہا کہ ان کے پاس ان سب کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
دوسری طرف بھارت کے انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ یہ تمام اطلاعات جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہو سکتی ہیں۔آر ٹی آئی درخواست کو جموں و کشمیر حکومت کے پاس بھیجا نہیں جا سکتا کیونکہ وہاں یہ ایکٹ 2005 ابھی تک نافذ العمل ہی نہیں ہے۔ جواب کے مطابق صرف جموں و کشمیر کے باشندے ہی آر آئی ٹی قانون کے مطابق درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں مودی کا ظالمانہ لاک ڈاؤن تیسرے ماہ میں داخل
آر ٹی آئی درخواست دائر کرنے والے ونکٹیش نائیک نے بھارتی اخبار کو بتایا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ سال 19 دسمبر سے صدر راج نافذ ہے، ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وزارت داخلہ کے پاس ان سب پابندیوں کے بارے میں کوئی اطلاع ہی نہ ہو۔
واضح رہے کہ نائیک نے یہ درخواست 30 اگست کو دائر کی تھی۔نائیک نے جموں و کشمیر کے بارے میں احکامات کی کاپیوں کے علاوہ ان لیڈروں اور سیاسی کارکنان کے نام بھی پوچھے تھے جنھیں آرٹیکل 370 ختم کیے جانے کے سلسلہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی انھیں جس جگہ بھی رکھا گیا ہے اس جگہ کے نام بھی پوچھے گئے تھے۔