آئی پی آئی کی امریکا سے صحافیوں کی جاسوسی کے نئے عالمی معاہدے کی مخالفت کی اپیل

0
73
IPI

آزاد میڈیا کے عالمی نیٹ ورک انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) نے امریکا سے صحافیوں کی جاسوسی کے نئے عالمی معاہدے کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں آزادی صحافت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور کئی ممالک میں صحافیوں کی حفاظت خطرے میں ہے۔
آئی پی آئی نے اپنے تازہ ترین بیان میں، جو مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ (سابقہ ایکس) پر جاری کیا گیا، امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ جاسوسی و نگرانی کے اس نئے عالمی معاہدے کو مسترد کرے۔ انسٹیٹیوٹ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ حکومتوں کو وسیع پیمانے پر جاسوسی اور نگرانی کے اختیارات دے گا، جو کہ آزادی صحافت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔آئی پی آئی کے ڈائریکٹر جنرل باربرا ٹریونیئن نے اس موقع پر کہا، "یہ معاہدہ نہ صرف صحافیوں کی آزادی کو محدود کرے گا بلکہ آمرانہ حکومتوں کو پریس کو نشانہ بنانے اور دبانے کے لیے مزید آلات فراہم کرے گا۔ ہم امریکا سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس خطرناک معاہدے کو مسترد کرے اور دنیا بھر میں صحافیوں، آزادی صحافت اور جمہوریت کے حق میں کھڑا ہو۔”

معاہدے کی تفصیلات ابھی تک عوامی نہیں کی گئی ہیں، لیکن ذرائع کے مطابق اس میں حکومتوں کو صحافیوں کے ڈیجیٹل مواصلات کی نگرانی، ان کے ذرائع کی شناخت، اور حساس معلومات تک رسائی کے وسیع اختیارات دینے کی تجویز ہے۔ یہ اقدامات بظاہر قومی سلامتی کے نام پر کیے جا رہے ہیں، لیکن تنقید کاروں کا کہنا ہے کہ یہ آزادی اظہار رائے اور صحافتی آزادی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔آئی پی آئی نے اپنے بیان میں دنیا بھر کی مختلف صحافتی تنظیموں کو بھی ٹیگ کیا ہے، جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف)، اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) شامل ہیں۔ ان تنظیموں سے اس مہم میں شامل ہونے اور اپنی آواز بلند کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

صحافتی آزادی کے ماہر اور سابق صحافی ڈاکٹر علی احمد نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "یہ معاہدہ ایک خطرناک مثال قائم کر سکتا ہے۔ اگر امریکا جیسی جمہوری ریاست اس قسم کے اقدامات کی حمایت کرتی ہے، تو یہ دنیا بھر میں آمرانہ حکومتوں کو صحافیوں پر دباؤ بڑھانے کا بہانہ دے سکتا ہے۔”واضح رہے کہ گزشتہ کچھ سالوں میں کئی ممالک میں صحافیوں پر حملے، ان کی گرفتاریاں اور قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، صرف گزشتہ سال 100 سے زائد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے گئے یا قید کیے گئے۔

آئی پی آئی کے اس اقدام کو عالمی سطح پر صحافتی برادری کی جانب سے زبردست حمایت مل رہی ہے۔ کئی ممالک کے صحافتی اداروں نے بھی اس مہم میں شمولیت کا اعلان کیا ہے اور اپنی حکومتوں سے اس معاہدے کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس معاملے پر امریکی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم، امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے نجی طور پر کہا ہے کہ حکومت صحافتی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور کسی بھی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرے گی جو اس بنیادی حق کو متاثر کرے۔

آئی پی آئی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر مزید آگاہی پھیلانے کے لیے ایک عالمی مہم شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں ایک آن لائن کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں دنیا بھر کے صحافی اور میڈیا ماہرین شرکت کریں گے۔یہ معاملہ آنے والے دنوں میں مزید توجہ کا مرکز بننے کا امکان ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف صحافیوں کی آزادی بلکہ عام شہریوں کی رازداری اور آزادی اظہار رائے کے حقوق بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ آئی پی آئی کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر مسلسل نظر رکھے گی اور ضرورت پڑنے پر مزید اقدامات کرے گی۔

Leave a reply