علامہ اقبال کے جزوی مطالعہ کے بعد کچھ جملے آج کے نوجوان اور مسلمان کے لیے کہ عصر حاضر کے مسلمانوں
اپنی ملی پستی و زوال کا سبب خود ہیں لیکن شکوہ رب سے کرتے رب سے شکوہ کرنے کی بجاۓ پہلے ذرا اپنی اداؤں پر غور نھیں کرتے۔ تمھاری دینی حالت یہ ہے کہ تمھیں صبح فرض نماز کے لئے اٹھنا بھی گراں اور ناگوار ہے کاہلی نے تمہیں اپنے گرفت میں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ دنیا کا شوروغوغا تمھیں سنائی نھیں دیتا پانچ وقت کی گونجتی آواز تمہارے کانوں پر کوئی اثر نھیں چھوڑتی اس قدر بےحسی اور لاپرواہی ہے ؛ گویا تمھیں رب سے پیار نہیں بلکہ اپنی نیند پیاری ہے۔ تمھاری طبیعت اور مزاج رب کے احکام کی پابندی سے اس قدر آزاد ہو چکی ہے کہ رمضان کے روزوں کی پابندی بھی تمھارے لئے مشکل ہے۔جب اللّٰہ تعالیٰ کی عطاء کا عالم یہ ہے کہ اللّٰہ کی طرف سے رحمت کی پکار آتی ہے لیکن تم رحمت سمیٹنا نھیں چاہتے اس کی طرف سے نعمتوں کی برسات کا نکارہ بجایا جاتا ہے لیکن تمھیں سنائی نھیں دیتا ۔ تو تم ہی بتاؤ کہ وفاداری کا اصول اور دستور یہی ہے تمھاری نگاہ میں؟ کہ رب کی رضا کے لئے فرض نماز روزے کی پابندی بھی نہ کرو؟ ارے نادان مسلمانو؛ تم ایک منظم قوم اور مضبوط قوت اپنے مذہب یعنی دین اسلام کی بدولت تھے؛ دنیا میں تمھاری ترقی اور عروج کا راز یہی تھا؛ آج تم نے قرآن و سنت کی رسی چھوڑ دی ہے تو تمھارا باہمی نظم و ضبط بکھر چکا ہے سو تم مسلمان ایک منظم اور طاقتور ملت نہیں رہے بلکہ ایک منتشر ہجوم اور بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہو جسے یہود ہنود ہانک رہا ہے تم خود اپنی ذلت کا سبب بنے ہوۓ ہو کیوں بھول جاتے ہو اپنی اسلاف کی قربانیوں کو ۔آج تم اپنے اسلاف کے نام سے خود کو متعارف کروانا چاہتے ہو لیکن خود عمل پیرا نھیں ہونا چاہتے
ارے ! تھے تو وہ آبا ہی تمہارے تم کیا ہو؟
آج تم وہ ہو جس کی دنیا میں کوئی وقعت اور اہمیت نہیں ہے؛
علامہ محمد اقبال نے اپنی مسلم قوم کے سوۓ ہوۓ ضمیر کو جگانے کی کوشش کی ہے کہ ؛جو قوم کبھی کلیساؤں میں آذانیں دیا کرتی تھی جو قوم کبھی بتوں کو نیست نابود کیا کرتی تھی آج وہی قوم بت خانے آباد کرنے میں لگ گئی ہے؛
تلواروں کے سائے میں اللّٰہ اکبر کی صدائیں لگانے والوں کی ذلت کا یہ عالم ہے کہ
آج اس قوم کی بیٹی کلیساؤں اور بت خانوں میں محفل کی زینت بنی ہوئی ہے جس قوم کی بیٹی کی ردا کے لیے املاک فتح کیے جاتے تھے جس قوم کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ کی دیواریں مسلم قوم کے جاہ وجلال کے آگےحل جایا کرتی تھیں لیکن آج وہی قوم خود اپنی ذلت کا سبب بنی ہوئی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی دی ہوئی دولت کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ ہم میں مذہبی آہنگی کا تصور ختم ہوگیا ہم نے مذہب کو صرف روایتی لحاظ دیکھا اور جس مذہب کو ہم نے حرف کل سمجھنا تھا اس کو ہم جزوی طور پر بھی اپنانے کو تیار نھیں ۔ہم نے اللّٰہ کے مقابل اپنی آسائشوں کو ترجیح دی اور رب کے حکموں کو پس پشت ڈال کر بڑھنا چاہا جو رب کو ناگوار گزری۔
@SyedHR92