ایران اور بھارت ایک صفحہ پر،سابق ایرانی صدر نے پاکستان کے خلاف زہر اگل دیا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ جب سے پنج شیر میں کاغذی شیر ڈھیر ہوئے ہیں اور افغانستان کی عبوری حکومت کا اعلان ہوا ہے۔ بھارت نے تو جو کرنا تھا وہ کر رہا ہے ۔ پر یہ ماننا چاہیے کہ اس کا پراپیگنڈہ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے پوری دنیا میں بھی پھیل رہا ہے ۔ پر اس سے طالبان کو گھنٹہ نہ تو فرق پڑرہا ہے نہ ہی وہ بھارت کو کوئی گھاس ڈال رہے ہیں ۔ ۔ حیران کن چیز یہ ہے کہ اس جھوٹے بھارتی پراپیگنڈہ سے کچھ ممالک کی حکومتیں بھی مرعوب ہوتی دیکھائی دیتی ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو بھارتی میڈیا کی دی ہوئی لائن کو ایرانی میڈیا فالو کررہا ہے اور کافی بپھرا ہوا دیکھائی دیتا ہے ۔ ساتھ ہی شاید ایرانی حکومت بھی اچھی موڈ میں نہیں ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ ٹاپ اسٹوڈنٹس ملٹری لیڈران ۔۔۔ زاکر، صدر ابراہیم، داؤد مزمل ۔۔۔ کو افغانستان کی نئی کابینہ میں جگہ کیوں نہیں دی گئی ۔ ۔ دوسرا اس امارات اسلامیہ کی کابینہ میں کوئی شعیہ یا ہزارہ وزیر نہیں لیا گیا ہے۔ اب خبریں ہیں کہ صوبائی سطح پر ان میں سے وزراء لیئے جائینگے اور مختلف فورمز پر ان کو نمائندگی دی جائیگی۔ یہ ہی بات خواتین بارے بھی کہی جاری رہی ہے کہ اگلے مرحلے میں خواتین کو بھی نمائندگی دی جائے گی ۔ اب ایران کے بدلے ہوئے رویے کے حوالے سے چند چیزیں ہیں ۔ جو پہلے آپکو بتا دوں پھر اصل کہانی بتاتا ہوں ۔ جہاں سابق افغان صدر حامد کرزئی اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر سے ٹیلی فون رابطہ ہوتا ہے تو تہران میں پاکستان و طالبان مخالف مظاہرے بھی ہوجاتے ہیں ۔ ساتھ ہی ایرانی وزارت خارجہ کےبیرونی مداخلت سےمتعلق بیان کےبعد اب سابق ایرانی صدر احمدی نثراد بھارتی ٹی وی wionکو انٹرویو دیتےہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ پاکستانی افسران براہ راست پنج شیر کی جنگ میں شامل ہوئے ۔ پاکستان جان لے کے جو کچھ ہوا وہ جلد ہی پھیلے گا اور پاکستان اس کی گرفت میں آئے گا۔ جن ممالک نے اس سازش کو سپورٹ اور ڈیزائن کیا انھیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یعنی بغیر کسی ثبوت کے سیدھی سیدھی پاکستان کو دھمکی لگائی جاتی ہے ۔ حالانکہ جو فوٹیجز اور رپورٹ بھارتی میڈیا نے اس حوالے چلائی ہیں وہ دو نمبر کیا دس نمبر ثابت ہوچکی ہیں ۔ کیونکہ انھوں نے ویڈیو گیمزکی ویڈیوز اٹھا اٹھا کر لوگوں کو بے وقوف بنایا ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ایرانی حکومت، میڈیا اور سیاستدان بھارتی پروپیگنڈےکا شکار ہوگئے؟یا پھر ایران کا کوئی vested interest ہے جو طالبان نے پورا نہیں ہونے دیا ۔ اس پر آگے چل کر چیزوں کو واضح کرنی کی کوشش کرتا ہے ۔۔ پر آج کی بھی سن لیں کہ ایران میں سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شامخانی ٹویٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے جامع حکومت کی تشکیل میں ناکامی اور بیرونی مداخلت تشویش کا باعث ہیں۔ ۔ اب یہ سمجھ سے باہر ہےکہ یہ ایرانی امریکہ اور یورپ کی زبان کیوں بول رہے ہیں ۔ کیونکہ یورپی یونین بھی یہ ہی کہا رہا ہے کہ طالبان جامع حکومت بنانے میں ناکام رہے ۔ ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی ایسی ہی بات کر رہے ہیں کہ نئی عبوری حکومت جامع نہیں اور طالبان کی کابینہ میں شامل کچھ افراد پر امریکا کو خدشات ہیں۔ اب اگر آپ ایران کی بات کریں تو یقینی طور پر ایران کے بھی افغانستان میں مفادات ہیں ۔ پر ایک چیز جو مجھے سمجھ آئی ہے کہ طالبان سے متعلق تمام پیشگوئیاں غلط ثابت ہوچکی ہیں ۔ ایسا ہی حکومت کی تشکیل بارے بھی سب کے اندازے غلط ثابت ہوگئے ہیں ۔ حقیقت میں طالبان نے میرٹ پر کوئی compromise
نہیں کیا ہے ۔ صرف ان لوگوں کو ہی عہدے دیے گئے ہیں جو اس تمام جدوجہد میں پیش پیش رہے ۔ چاہیئے وہ کسی کو جتنے مرضی ناپسندیدہ ہوں یا ان کے سر پر head money ہو یا پھر وہ بلیک لسٹ ہوں ۔ انھوں نے کسی بھی اندرونی اور بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کیا ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہاں ایک اور بات بھی ضروری ہے کہ مغرب یا مغربی میڈیا کیا سوچتا ہے اس سے طالبان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے پر نیویارک ٹائمز نے عبوری حکومت کا اعلان ہونے کے بعد جو خبر لگائی کہ Taliban appoint Stalwarts To Top Government Postsیعنی طالبان نے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر اپنے قد آور رہنماؤں کی تقرری کر دی ہے ۔۔ یہ بالکل واضح ہے کہ طالبان نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ آپ دیکھیں ان کی کابینہ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو باریش نہ ہو ۔ ملا نہ ہو ۔ پھر اپنے پہلے پالیسی بیان میں بھی امیرالمؤمنین ملا ہیبت اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسلامی اصول اور شرعی قوانین پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائےگا۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان صرف اُن بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پابند ہے جو اسلامی قوانین اور قومی اقدار کے خلاف نہیں ۔ جو دیکھائی دے رہا ہے اس سے یہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید صحیح معنوں میں دنیا کی پہلی اسلامی حکومت افغانستان میں قائم ہونے جا رہی ہے ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ اگر آپ ان کی ٹاپ لیڈر شپ کی hierarchyدیکھیں تو ٹاپ تھری لوگ ملا عمر کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں جو پہلے دن سے ان کے ساتھ تھے ۔ امیر المومنین ملا ہیبت اللہ وزیر اعظم ملا محمد حسن نائب وزیر اعظم اول عبدالغنی بردار، اب بھی اگر کسی کو گمان ہے کہ اس کی دال گل جانی ہے یا وہ تبدیلی لے آئے گا۔ یہ طالبان کو دھمکا لے گا یا ڈرا لے گا یا قائل کر لے گا تو میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ۔ یہ تو امریکی بھی مان چکے ہیں کہ talibans are tough negotiators ۔ اب چاہے امریکہ ہو ، ایران ہو ، یورپ ہو ، بھارت ہو ، پاکستان ہو یا کوئی بھی ملک ہو ۔ یہ واضح ہے کہ طالبان اپنے اصولوں پر اور مقصد پر کسی کی بات نہیں سنیں گے ۔ کرنی انھوں نے اپنی ہی ہے ۔ کیونکہ اصل چیز یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ ایک مقصد کے تحت کررہے ہیں ۔ یہ اقتدار کی لالچ یا دنیا کی حواس میں تو کرنہیں رہے ہیں ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس لیے مجھے نظر آرہا ہے کہ ملا عمر چاہیے اس دنیا میں نہیں رہے ۔ پر ان کے جانے کے بعد بھی افغانستان میں نظریہ اور طرز حکمرانی ان کا ہی چلے گا ۔ ویسے حقیقت پسندی کام لیا جائے تو نئے سیٹ اپ میں تمام علاقوں، تمام زبانوں اور تمام قبائل اور گروہوں کے لوگ موجود ہیں، سب کی نمائندگی ہے۔ ۔ مثال میں آپکو دے دیتا ہوں یہ جو امریکہ سمیت دیگر ممالک کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے دیگر قومیتوں کا۔ تو حقیقت یہ ہے کہ امریکی حملے 2001 کے بعد افغانستان کی حکومت میں 18 وزراء کا تعلق صرف ایک صوبے پنج شیر سے تھا۔ جبکہ اس بار تمام لسانی اکائیوں سمیت ہر اہم علاقے سے وزراء لیے گئے ہیں۔ نائب وزیر اعظم اول ملا عبد الغنی برادر پشتون،جبکہ نائب وزیر اعظم دوم مولانا عبدالسلام حنفی ازبک، آرمی چیف قاری فصیح الدین تاجک ہیں۔پھر کسی صوبے میں گورنر یا پولیس چیف کسے دوسرے علاقے سے نہیں لگایا گیا ۔ یہاں تک کہ پنج شیر کے حوالے سے طالبان اعلان کرچکے ہیں کہ یہاں گورنر اور پولیس چیف پنج شیری ہی لگائے جائیں گے ۔ یوں کسی حد تک انھوں نے نسلی، علاقائی و قومی تعصب کو کچلنے کی کوشش کی ہے ۔ ۔ پھر ایران کے concerns اپنی جگہ پر کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ گزشتہ دو روز سے ایسا لگ رہا ہے کہ چین شاید طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن جائے ۔ جہاں چین نے طالبان کی عبوری افغان حکومت کے قیام کا فوری خیرمقدم کیا اور ملک میں انتشار کے خاتمے کو سراہا ۔ اس کے ساتھ ہی چینی وزیر خارجہ نے نئے امارت اسلامی حکومت کے بعد افغانستان میں 14 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کردیا ۔ ۔ اب پوائنٹ یہ ہے کہ یہ چین ہی ہے جس نے ایران کے ساتھ 400بلین ڈالرز کا معاہدہ کیا ہوا ہے ۔ پھر اگر وہ نقشہ دیکھیں تو چین اور ایران کے درمیان افغانستان ہے ۔تو مجھے نہیں لگتا کہ زیادہ دیر تک ایران بھی اس نئے سیٹ اپ کی مخالفت کر سکتا ہے ۔ بھارت کے ساتھ ان کا تعلق جو بھی ہو پر یہ 400بلین ڈالرز بہت کچھ کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ طالبان تو اتنا کھول کر کھیل رہے ہیں کہ انھوں نے افغانستان کی نئی حکومت کی تقریب حلف برداری 11 ستمبر کے دن رکھی ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کروایا جائے کہ عالمی دہشتگرد امریکہ جنگی میدان میں شکست کے بعد اخلاقی اور سفارتی سطح پر بھی شکست کھا چکا ہے۔اب جب 11 ستمبر کو حلف برداری تقریب میں روس، چین، قطر، ترکی اور پاکستان نظر آئیں گے ۔ تو یہ بھارتی اور مغربی میڈیا جتنا مرضی پراپیگنڈہ کر لیں اس سے فرق نہیں پڑنا ۔ کل ہونے والے افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزائے خارجہ کے اجلاس میں بھی امارت اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔ انڈینز کو بس اتنا بتنا چاہتا ہوں کہ یہ اجلاس پاکستان نے کروایا تھا ۔ ۔ سبق یہ ہے کہ میدان میں ہاری ہوئی جنگیں میڈیا ، ٹویٹر اور فیس بک پر پراپیگنڈہ کرکے نہیں جیتی جا سکتی ہیں ۔ طالبان ڈسپلن اور قربانی کے جذبے کی وجہ سے اشرف غنی کیا گزشتہ تمام حکومتوں سے بہت آگے ہیں۔ ان کی صفوں میں کرپشن نہیں ہے جبکہ گزشتہ ادوار حکومت کھڑے ہی کرپشن پر تھے۔ اس حوالے سے طالبان کا پلڑا بہت بھاری ہے۔ اس وقت جو سب سے بڑی کامیابی طالبان نے حاصل کی ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں فوری انصاف شروع ہوچکا ہے ۔ گھنٹے نہیں منٹوں میں چور بھی پکڑے جا رہے ہیں ۔ رشوت خور اور کرپٹ لوگوں کا احتساب بھی ہورہا ہے اور کرائم ریٹ بھی زیرو ہوگیا ہے۔ یہ دنیا کے بڑے سے بڑے ممالک ، انکا نظام اور انکے ادارے اربوں کھربوں کی فنڈنگ کے باوجود نہیں کرپاتے ہیں جو یہ طالبان نے چند دنوں میں پورے افغانستان میں کرکے دیکھا دیا ہے ۔ بہرحال 40 سالوں میں یہ پہلی حکومت ہوگی جو پورے افغانستان پر حکومت کرے گی۔

Shares: