ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملہ: ایک نئی جنگ کا آغاز
ایران نے اسرائیل پر ایک بڑی میزائل حملہ کیا ہے، جس کی تصدیق اسرائیلی فوج نے کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران نے اسرائیل کے شہر تل ابیب کو ہدف بنا کر 400 بیلسٹک میزائل داغے ہیں، جس کے بعد پورے اسرائیل میں سائرن بجنے لگے ہیں۔ یہ واقعہ مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال میں ایک نئی شدت کا باعث بن سکتا ہے۔عرب میڈیا کے مطابق، ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کا نشانہ تل ابیب تھا، جہاں مختلف مقامات پر سائرن کی آوازیں سنائی دی گئی ہیں، اور شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے فوری طور پر ایک جنگی کابینہ کا اجلاس طلب کیا ہے تاکہ اس نازک صورتحال پر غور کیا جا سکے۔ اسی دوران، امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اپنی قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ میٹنگ بلالی ہے تاکہ اس حملے کے مضمرات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، حالیہ دنوں میں یہ افواہیں گئیں کہ ایران آئندہ 12 گھنٹوں کے اندر اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس کے جواب میں، نیو یارک ٹائمز نے اسرائیل میں موجود اپنے سفارتکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بم شیلٹر کے قریب رہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس صورت حال کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔
اس حملے کے پس منظر میں، یہ بات اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی ایک نئی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے، جس کے اثرات صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ پورے خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وقت، عالمی برادری اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کشیدہ صورتحال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد قومی سلامتی کا اجلاس طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ امریکا اسرائیل کا بھرپور دفاع کرے گا، میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے بھی اپنی جنگی کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ایران کی طرف سے داغے جانے والے اردن کی فضا سے گزر کر اسرائیل کی طرف جا رہے ہیں جب دوسری جانب لبنان سے حزب اللہ نے بھی اسرائیل پرراکٹ حملے شروع کر دیے ہیں۔ پاسداران انقلاب نے اس حملے کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ قرار دیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اس واقعے کے جواب میں شدید کارروائی کر رہا ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اسرائیلی حکومت اور امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ ایران آئندہ چند گھنٹوں میں اسرائیل پر مزید حملے کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ خدشات اس وقت بڑھ گئے تھے جب اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کو ہدف بنایا تھا، جس کے بعد ایران کے سخت ردعمل کا امکان تھا۔
اسرائیل کے دفاع کے لیے، رواں برس اپریل میں شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے بعد، امریکہ اور مغربی اتحاد اس وقت سامنے آئے تھے جب ایران نے اسرائیل پر بیک وقت میزائل اور ڈرون حملے کیے تھے۔یہ حملہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کی ایک نئی مثال ہے، جس کے اثرات صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ پورے خطے میں مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ عالمی برادری اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس کشیدہ صورت حال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔