عراق میں مسلکی بنیاد پر ٹارگڈ کلنگ سے عوام میں خوف وہراس پھیل گیا
باغی ٹی وی : عراقی عوام ابھی تک ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں کے حوالے سے خوف اور اندیشوں کا شکار ہے۔ ان کارروائیوں میں گذشتہ عرصے کے دوران بصرہ ، ناصریہ یا عراق کے دیگر علاقوں میں سماجی اور سیاسی کارکنان کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔
اس بات کا خدشہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہر میں عوامی احتجاجی تحریک میں شریک افراد کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ العربیہ کی رپورٹ کےمطابق عوامی مظاہروں کا سلسلہ گذشتہ برس اکتوبر سے شروع ہوا تھا اور یہ ابھی تک جاری ہے۔ تاہم ان مظاہروں کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سماجی کارکنان نے الزام عائد کیا ہے کہ قتل کی کارروائیوں کے پیچھے ایران کی ہمنوا عراقی جماعتوں کا ہاتھ ہے۔
چند روز قبل احتجاج کرنے والے مظاہرین نے ملک کے جنوب میں ایران کی ہمنوا جماعتوں کے دفاتر کو نذر آتش کر کے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔
ٹارگٹ کلنگ کی اس منظم مہم کے حوالے سے سماجی کارکن اور مظاہروں میں شریک عراقی شہری ہاشم الجبوری نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ جمعرات 20 اگست کی شب نامعلوم شخص نے اس کی گاڑی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا تاہم وہ خوش قسمتی سے اس حملے میں محفوظ رہا۔ الجبوری کے نزدیک سماجی اور سیاسی کارکنان کے قتل کی حالیہ کارروائیاں ایران کی وفادار سیاسی جماعتوں کی جانب سے زبانوں کو خاموش کرانے اور رائے عامہ کو دبانے کے سلسلے کی کڑی ہے۔
الجبوری کے مطابق بدعنوان عناصر کو ملک میں اصلاح کے مطالبے کی آوازیں پریشان کرتی ہیں۔ اس لیے میڈیا کے ذریعے بعض اشتعال انگیز بیانات پھیلائے جا رہے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگرچہ اشتعال دلانا عراق کے قانون میں قابل سزا جرم ہے تاہم متعلقہ ادارے اشتعال انگیزی کے مرتکب افراد کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر رہے۔
خیال رہے کہ عراق میں یکم اکتوبر سے عوامی سطح پر احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حکومت کی بدانتظامی، کرپشن اور بے روزگاری کے خلاف لوگ سڑکوں پرنکل آئے۔ سنہ 2003ء میں امریکا کی عراق پریلغار اور صدام حسین کا تختہ الٹے جانے کے بعد ملک میں حکومت کے خلاف ہونے والے یہ سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔
عوامی سطح پرہونے والے پرتشدد احتجاج نے حکومت کو ہلاک کررکھ دیا ہے۔ وزیراعظم عادل عبدالمہدی کو استعفیٰ دینے پرمجبور کیا گیا اور اب مظاہرین کسی شفاف اور غیر جانب دار شخص کو ملک کا وزیراعظم بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں
واضح رہے کہ بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کے خلاف جاری رہا جس میں احتجاج میں اب تک 400 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں،اطلاعات کے مطابق عراق میں 2 ماہ سے جاری پرتشدد احتجاج میں 400 سے زائد ہلاکتوں کے بعد بالآخر عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کو استعفیٰ دینا پڑا.لیکن اب رپورٹ یہ ہے کہ یہ ہلاکتیں اس سے بھی زیادہ ہے