میں نانا جیسا بنوں گا!!!
تحریر:
عاشق علی بخاری

تاریخ میں جسے بھی بڑا کردار ادا کرنا ہو اس کی تعلیم و تربیت بھی اسی قدر سخت ہوتی ہے اللہ تعالی کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ کب کس نے اور کس وقت تاریخ کے رخ کو تبدیل کرے گا اور وہی یہ سارا انتظام کرتا ہے. جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے والد مصر کے گورنر مقرر ہوئے تو انہوں نے اپنی بیوی کو خط لکھا کہ بیٹے کو لے کر مصر آجاؤ. عمر رحمہ اللہ کی والدہ ام عاصم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تاکہ ان سے مشورہ کریں. انہوں نے کہا بالکل تمہیں جانا چاہیے وہ تمہارا شوہر ہے لیکن عمر کو یہیں چھوڑ جاؤ یہ تم میں ہم سب سے زیادہ مشابہ ہے. تاکہ مدینہ جو علم کا گھر ہے یہاں رہ کر تمہارے بچے کی بہتر تربیت ہو سکے گی لہذا اسے ہمارے پاس چھوڑ جاؤ. خود ابن عمر رضی اللہ عنہ خود وقت کے محدث اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں. بچپن میں جب عمر رحمہ اللہ پڑھ کر آتے تو اپنی والدہ سے کہتے "میں نانا جیسا بنوں گا” والدہ بھی ان سے مذاق کرتی اور حیران ہوتیں. تقدیر انسان کو ہمیشہ اس راستے پر چلاتی رہتی ہے جہاں اس کی منزل ہوتی ہے، آپ اپنے نانا جیسا بننا چاہتے تھے لیکن اللہ رب العالمین نے آپ کو اپنے پڑنانا عمر بن خطاب رحمہ اللہ جیسا بنا دیا یہی وجہ آج آپ کو لوگ عمر ثانی کے نام سے یاد کرتے ہیں.
جن اساتذہ سے علم حاصل کیا ان میں سے ہر ایک علم کا سمندر ہے، انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ، ابو بکر بن عبد الرحمن بن ابو بکر، آپ کے استاذ خاص صالح بن کیسان اور عبید اللہ بن عتبۃ بن مسعود رحمہ اللہ ہیں. آپ کے والد عبدالعزیز بن مروان بھی اپنے پیارے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ رہتی تھی. صالح بن کیسان رحمہ اللہ سے خط و کتابت اور جب کبھی مدینہ آتے یا راستے سے گزر رہے ہوتے ان سے اپنے بیٹے کی تعلیم کے متعلق سوال و جواب کرتے، جہاں کمی نظر آتی وہاں سختی کا حکم دیتے. آپ کے اساتذہ بھی آپ پر خاص توجہ دیتے سعید بن مسیب رحمہ اللہ خلیفہ وقت کے لئے بھی کھڑے نہ ہوتے لیکن جب اپنے شاگرد کا بلاوا آتا تو ضرور جاتے. اللہ تعالی نے آپ کو یہ شرف بخشا کہ آپ نے بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کیا، اس کے ساتھ ساتھ عربی ادب، شعر و شاعری پر بھی عبور حاصل کیا. احادیث کا بھی علم حاصل کیا اگرچہ آپ نے احادیث صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے حاصل کی لیکن زیادہ تر فقیہ و مفتی مدینہ عبید اللہ بن عتبۃ بن مسعود رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں. آپ کی تعلیم اور اساتذہ کی تربیت کا خاص نتیجہ تھا کہ لڑکپن میں ہی قرآن پڑھ کر زار و قطار روتے. اپنے اساتذہ کا ادب اور ان جیسے اخلاق اپنانے کی کوشش کرتے اور اپنے ساتھیوں میں انہیں یاد کرتے اور کہتے استاد محترم عبیداللہ کی مجلس میں بیٹھنا 1000 درہم سے بہتر ہے. گورنر مدینہ بننے کے بعد بھی اپنے اساتذہ کی مجلس میں آتے. حتی کہ جب آپ خلیفہ بن گئے اس وقت بھی اپنے اساتذہ کو نہیں بھولے اور جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو اپنے اساتذہ کو یاد کرتے کہ اگر آج میرے استاد و مربی عبیداللہ رحمہ اللہ زندہ ہوتے تو میں ان کی رائے کو مقدم رکھتا. یہی وجہ ہے کہ ان مختصر ترین دور بھی بنی امیہ کا بہترین اور اسلام کا سنہرا دور کہلاتا ہے.
ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہماری دنیا و آخرت بہتر ہو. اپنے بچوں دین کی تعلیم ضرور دیں اس لیے کہ یہ علم دنیا و آخرت میں رب کی رضا کا باعث ہے.

Shares: