اسلام میں والدین کی مقام | تحریر :عدنان یوسفزئی

اس جہان رنگ و بو میں انسان کو لانے کا ذریعہ و وسیلہ والدین ٹھہرے۔

دنیا میں آجانے کے بعد انسان کی پرورش و تربیت کا ذمہ اٹھانے والے بھی والدین ہی ہوتے ہیں۔ وہ والدین ہی ہوتے ہیں جو بچے کی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ خود تو بھوکے رہ جاتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کا پیٹ بھرا ہو۔ ماں جو خود تو گیلی جگہ سو جاتی ہے مگر چاہتی ہے کہ میرا بچہ سوکھی اور خشک جگہ سوئے۔

ھاں خود تو تپتی دھوپ میں مزدوری کرے اور بچے کو چھاؤں میں لا کھلانے والے کو والد کہتے ہیں۔

والد اور والدہ ہی تو ہیں جو اپنی اولاد سے بغیر کسی غرض کے محبت کرتے ہیں۔ اولاد چاہے جتنا بھی نافرمان کیوں نہ ہو جائے والدین پھر بھی والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوا کرتی ہے۔

اللہ تعالی نے بھی جب اپنی محبت کا معیار بتایا تو کہا :
"میں ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہوں”

جب والدین اس قدر اپنی اولاد سے مخلص ہوں تو اخلاقی فرض بنتا ہے کہ منعم کا شکریہ ادا کیا جائے اس کی خدمت و اطاعت کی جائے مگر اللہ تعالی نے حکم دیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ فرمایا:

واحفض لھما جناح الذل من الرحمۃ
اپنی بازوں عاجزی سے ان دونوں (والدین) کے آگے جھکا دو۔ مطلب ان کے سامنے جھکے رہو یعنی ان کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر لو۔ جو وہ حکم دیں وہ کرو۔
فرمایا:
ولا تقل لھما اف
انہیں اف تک نہ کہو,
ولا تنھرھما
انہیں مت جھڑکو۔

یہ ہیں اسلامی تعلیمات والدین سے متعلق اور رب تعالی ان کے لیئے دعا کرنے کا خود حکم دیا فرمایا:
وقل رب الرحمھما کما ربیانی صغیرا
ترجمہ: "آپ کہیں کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی”

اسلام کی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ والدین کا احترام کیا جائے , ایسا کوئی فعل نہ کیا جائے جو انہیں ناگوار گزرے. والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی ان کی خدمت و فرمانبرداری کا درس دیا ہے بلکہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے:
"میں عشاء کی فرض نماز پڑھ رہا ہوتا اور میری ماں زندہ ہوتی, مجھے میری ماں آواز دیتی تو میں محمد نماز توڑ دیتا اور لبیک کہتا”.
اسلامی تعلیمات میں والدین کی اطاعت و فرماں برداری،ان کی خدمت اور ان سے حسنِ سلوک کی سخت تاکید ملتی ہے۔حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمﷺ سے دریافت کیا کہ اولاد پر والدین کا کیا حق ہے؟آپﷺ نے فرمایا،وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔(سنن ابن ماجہ)یعنی تم ان کی خدمت و اطاعت اور ان سے حسن سلوک اوران کی رضا و فرماں برداری کی بدولت جنت حاصل کرسکتے ہو اور ان سے بدسلوکی اور نافرمانی تمہیں جنت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔
حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہوئی(وہ ذلیل و رسوا،ناکام و نامراد ہوا) اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔ اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔ عرض کیاگیا:اے اللہ کے رسول ﷺ! کس کی؟ آپ ﷺ نےفرمایا، جس نے ماں باپ میں سےکسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپےکی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔(صحیح مسلم)

والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بے پناہ تاکید کے پس منظر میں ضرور یہ سوال پیدا ہوگا کہ والدین اگر کافر و مشرک ہوں، یا وہ کفر و شرک اورخلافِ شریعت امور کا حکم کریں، ایسی صورت میں وہ راضی و خوش رہیں تو ایسی صورت میں اولاد کا کیا رویہ ہونا چاہیئے؟ اس حوالے سے بھی کتا ب و سنت میں واضح رہنمائی موجود ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق والدین سے بڑھ کر ہے لہذا کفر وشرکت ، خلاف شریعت کام اور اللہ کی ناراضی والے امور میں والدین کی یا کسی کی بھی اطاعت جائز نہیں۔ اسی طرح والدین کے کفر و شرکت کے باوجود دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک، ان کا ادب و احترام اور ان کی خدمت و فرمانبرداری ضروری ہے۔ اسلام اس سے منع نہیں کرتا بلکہ اس کی ترغیب دیتا اور تاکید کرتا ہے۔

غرض اسلام والدین کے ساتھ حسن سلوک کی جو تعلیمات دیتا ہے کوئی دوسرا مذھب اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔ والدین سرمایہ حیات ہیں۔ جن کے زندہ ہوں خوب قدر کرنی چاہیئے اور اگر بادل نخواستہ جس کے والدین اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ہوں انہیں اپنے والدین کے لئے استغفار اور ایصال ثواب کرنا چاہیئے۔
Twitter | @AdnaniYousafzai

Comments are closed.