اسلام اور سیاست تحریر: رانا محمد جنید

0
62

یہ ایک بہت اہم سوال ہے اور پچھلی بہت سی دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے،
کیا اسلام سیاست کی اجازت دیتا ہے،کیا اسلام میں سیاست کا کوئی کردار ہے۔؟
یقیناً یہ سوال آپ بھی بہت دفعہ سن چکے ہوں گے،
اور یہ کے جوابات بھی بہت الگ الگ قسم کے ہوتے ہیں
کچھ لوگ کہتے ہیں اسلام کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلام صرف اور صرف عبادات کا ہی نام ہے۔
پر کیا یہ حقیقت ہے اسلام اور سیاست جدا جدا ہیں۔۔۔۔؟
اور یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سوال پیدا کب ہوا۔
کیوں لوگوں کو ایسا بولنا پڑا کے اسلام اور سیاست جدا جدا ہیں
اگر ہزاروں سال پیچھے جا کے دیکھا جائے اور اسلام کی تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ہمیں یہ پڑھنے کو ملے گا اللہ پاک جب بنی اسرائیل کی طرف کوئی نبی بنا کے بھیجتا تھا تو اسے نبی کے ساتھ ساتھ حاکم بھی بنا کے بھیجا جاتا تھا
جب ایک نبی وفات پا جاتا تھا تو دوسرا نبی اس کی جگہ پر آ جایا کرتا تھا
نبی کریم خاتم النبیین محمدﷺ نے ارشاد مبارک فرمائے:

‏بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہو جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں
(صحیح بخاری باب الانبیاء ذکر بنی اسرائیل حدیث 3455)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئیے گا اس لیے صحابہ کرام امت کے رہنمائی کے لیے خلیفہ بن کے آئیے
اور خلیفہ وہ ہی بنا کرتا تھا جو جتنا زیادہ متقی اور پرہیز گار ہوتا تھا
خلافت کے بعد ملوکیت شروع ہوئی جو کے اسلام کے ساتھ ساتھ چلتی آئی
اور پھر اس کے بعد بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلمان بہت سارے حصوں میں تقسیم ہو گئے
اس کی وجہ دین دشمنوں کو دین اسلام کا ڈر تھا کے اگر مسلمان متحد رہے اور اسلام کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو ان کو روکنا ممکن نہیں۔
اس لیے یہود و نصارٰی نے مسلمانوں کو آپس کے اختلاف میں ڈال کے سرحدوں میں تقسیم کر دیا
اور مسلمان حکمرانوں اور نوجوان نسل میں یہ بات زہر کی طرح شامل کر دی کی اسلام اور سیاست جدا ہیں۔
جب تک کوئی پرہیز گار شخص حاکم نہیں بنے کا تب تک دین دشمنوں کو اسلام کے کوئی خطرہ ہی نہیں
اور یہ ہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء اکرام کو حکومتی معاملات سے الگ کر دیا گیا
چاہے وہ بادشاہت نا نظام ہو یا جمہوری نظام

علامہ محمد اقبال نے کیا خود کہا تھا

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اگر ہم اسلام اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا کریں گے تو ہمارے پاس انگریزوں کا ظالمانہ نظام جمہوریت کی شکل میں ملے گا جو مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے
آج کا ہر مسلمان حکمران اسلام کی خدمت کو چھوڑ کر اپنے ملک اور اپنی سرحد کی فکر میں ہے، اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں
اگر مسلمان حاکم مل بیٹھ کر اپنے معمولات کو اسلام کی رو سے حل کریں کی کوشش کریں تو ممکن ہے مسلمان ایک بار پھر سے متحد ہو سکتے ہیں اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس پا سکتے ہیں
پر اس کے لیے سب کو اسلام کے بارے سمجھنے اور جاننے کی کوشش کرنا لازم ہے
ایران کے سپریم لیڈر امام خمینی صاحب نے کیا خوب کہا ہے

”ہمارا دین عین سیاست اور ہماری سیاست عین دین ہے“

ہمارا اسلام ہمیں سیاست کے بہترین اصول فراہم کرتا ہے
اور اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے

Leave a reply