اسلام ایک جامع، فطری اور کامل دین ہے جس کے تمام قوانین اور اصول و ضوابط فطرت کے تمام تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ اسلامی نصب العین انسانیت کی بقا، ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود سے بھرپور ہے کیونکہ اسلام واحد دین ہے جو زندگی سے متعلق تمام معاملات (دینی و دنیاوی، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی) میں مکمل اور جامع ترین رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو انسانی زندگی اور مہذب معاشرتی تکمیل کے تمام پہلووں کا مکمل احاطہ کیا ہوئے ہے۔ اگر حسن معاشرت کی بات کی جائے تو انسانوں کے مابین ہمدردی، اخلاص، اتفاق، باہمی تعلقات اور خدمت کی غرض سے جڑے رشتوں اور باہمی حقوق و فرائض کو جس خوش اسلوبی سے اسلام نے بیان کیا ہے وہ کہیں اور میسر نہیں آتے۔ حقوق العباد کے عمومی موضوع سے اگر ہم اپنے مخصوص موضوع یعنی عورت کے حقوق و فرائض کی طرف متوجہ ہوں تو ہمیں تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہو گا کہ اسلام سے قبل رومی، یونانی اور زمانہ جاہلیت کے ادوار میں عورت سے ساتھ کس قدر بدتر اور تضحیک آمیز برتاؤ رکھا جاتا تھا۔ وہ ظلم و ستم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جو عورت ان تمام ادوار میں سہہ چکی ہے۔ آپ کو تاریخ انسانی میں اسلام وہ واحد دین ملے گا جس نے نہ صرف عورت کی تضحیک منع فرمایا بلکہ عورت کو معاشرے میں رتبہ، مقام اور عزت و آبرو سے بھی سرفراز فرمایا۔ اسلام نے عورت کا وراثت میں حصہ مقررکیا اور دیگر اسے وہ تمام حقوق عطا کیے جن سے اسے محروم رکھا جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو معاشرے میں وہ مقام عطا کیا جس کی وہ صدیوں سے متلاشی تھی۔ اسلام نے دنیا کو عام پیغام دیا کہ عورت سامان عیش و عشرت نہیں بلکہ نسل انسانی کی بقا اور سلامتی کا نام ہے۔ جہاں اسلام نے عورتوں کے بے شمار حقوق مقرر کیے ہیں وہیں ان پر کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی عائد کیے ہیں جن کی پاسداری تہذیب یافتہ معاشرے کی تشکیل کے لیے نہایت ضروری ہے۔ عورت کے ذمہ تمام فرائض میں سب سے اہم اور اولین فرض احکام الہی کی روشنی میں اپنی عصمت اور آبرو کی حفاظت کرنا ہے۔ اس فرض کی تکمیل کے لیے اللہ رب العزت نے خواتین کو باکردار اور باپردہ ہونے کا حکم دیا ہے تاکہ معاشرے میں ان کا وقار بلند ہو۔ اللہ رب العزت سورہ النور کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرماتا ہے کہ،
” ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے، اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔ النور31″۔ احکام پردہ اور عصمت کے تحفظ پر اس کے علاوہ بھی بیسیوں آیات اور احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں عورت کو باپردہ اور باحیا رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
الحمدللہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے لہذا یہاں کی تہذیب و ثقافت اور ملکی قوانین کا اسلامی قوانین کے ساتھ مطابقت رکھنا بے حد ضروری ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے احکام الہی اور اسلامی قوانین کی پاسداری ہم پر فرض ہے اگر ہم اس سے روگردانی کریں گے تو یہ ہمارا یہ عمل اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی ، سرکشی اور قانون شکنی کے زمرے میں آئے گا۔ اسلام نے عورت کو جس انداز سے باپردہ رہنے کا حکم صادر کیا ہے اس کی ہوبہو پیروی ہم سب پر فرض ہے اور اس پر کسی قسم کی ذاتی رائے کو فوقیت دینا گناہ کبیرہ ہے۔ اسلام ایک دین فطرت ہے اور اسکے احکامات مہذب اور باوقار معاشرت کے تمام اصولوں کے عین مطابق ہیں۔ اسلام نے عورت کو پردے کا حکم اس لیے صادر فرمایا ہے کہ معاشرہ اس بے حیائی اور فحاشی سے بچ سکے جو نسل انسانی اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کررہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے وطن عزیز بھی عورت کی آزاد طرز زندگی کے نام پر بے پردگی، بے حیائی اور فحاشی پھیلانے والے اسلام اور پاکستان دشمن عناصر کی زد میں ہے۔ اس پھیلتی ہوئی بے شرمی اور بے حیائی کا نتیجہ ہمیں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم اور خواتین کی عصمت دری کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں جنسی جرائم کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
اس سنگین صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے اپنے اہم بیان میں خواتین کو مختصر لباس زیب تن کرنے سے اجتناب کرنے کی ہدایت جاری کی۔ وزیراعظم پاکستان نے خواتین کو پردے کا اہتمام کرنے کی ہدایت دی تاکہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم اور بے راہ روی کو روکا جاسکے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں ہر شخص ذاتی مفاد کے لیے خیر و شر اور احکام الہی کو فراموش کیے بیٹھا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان پر سیاست دان اپنی سیاست چمکانے کی غرض سے مخالف بیانات دے رہے ہیں تو دوسری لبرل مافیہ اور اسلام دشمن قوتیں سیخ پا ہیں۔ اس بیان کے باعث اصل مروڑ لبرلز اور انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے داروں کے پیٹ کیں اٹھ رہے ہیں جنہیں پاکستان میں اپنا دھندہ چوپٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مادر پدر آزاد خیالات کا حامی یہ طبقہ جو "عورت مارچ” کے نام سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کا ڈھونگ رچا کر در پردہ بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہا ہے۔ ہم سب اس بات کے شاہد ہیں کہ کس طرح عورت کارڈ استعمال کرتے ہوئے اس طبقے نے ملک میں فحاشی کو عام کیا ہے۔ یہ لوگ دوبارہ سے "عورت مارچ” کے لیے پر تول رہے ہیں مگر گزشتہ عورت مارچ کے جلسے جلوسوں میں استعمال ہونیوالے بینرز، نعروں اور اسکے علمبرداروں کے کرتوت ہم سب کے سامنے ہیں۔ جن سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا مقصد عورت کے حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ یہ لوگ عورت کو آزادی اور حقوق کی جنگ کے نام پر گمراہ کرکے بے حیائی اور فحاشی کی جانب راغب کررہے ہیں۔ عورت کی تعلیم، وراثت میں اسکا حق، ملازمت کے یکساں مواقع اور دیگر حقوق کو چھوڑ کر انکی سوئی گھوم گھما کر بے پردگی اور بے حیائی پر ہی آکر ٹکتی ہے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد اس طبقے کے اس قدر متحرک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لبرل طبقہ عمران خان صاحب کی عوام میں مقبولیت سے بخوبی واقف ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ خان صاحب کے اس بیان کے بعد پردے کے معاملے میں نوجوان نسل کا وہ طبقہ بھی اس معاملے میں محتاط ہوجائے گا جو اس سے قبل پردے کی پابندی کا قائل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اپنا دھندہ بچانے اور فحاشی پھیلا کر ہماری نوجوان نسل کو بہکانے کے لیے نئے اور منفرد انداز سے وارد ہوں گے۔ بحیثیت مسلمان اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلامی قوانین، اسلامی رویات اور تہذیب و ثقافت کو اپناتے ہوئے ان اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کو شکست دیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسلام کے سنہری اصولوں کی بنیاد پر ایک ایسا فلاحی، صحت مند اور مذہب معاشرہ تشکیل دیں جہاں ہررنگ و نسل کے لوگ طبقاتی اور جنسی تقسیم سے آزاد پرامن زندگی گزار سکیں۔
اللہ اقوام عالم میں پاکستان کو رفعتیں اور بلندیاں عطا فرمائے آمین