سپریم کورٹ ریو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کی سماعت ہوئی
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،خصوصی بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے، دوران سماعت اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے ،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پانچ نکات پر دلائل دونگا،مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقاء پر دلائل دونگا،پاکستان میں نظر ثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کرونگا،مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کرونگا، بھارتی سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے دائرہ اختیار اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دونگا،آرٹیکل 184 تین کے تحت پہلہ فیصلہ منظور الہیٰ کیس میں آیا ،منظور الہیٰ کے بھائیوں نے سندھ اور بلوچستان میں بھی درخواستیں دائر کیں،گرفتاری کے بعد منظور الہی کو قبائلی علاقہ میں لے جایا گیا،درخواستوں میں منظور الہیٰ نے اپنی بازیابی کی استدعا کی،1973 کے آئین میں بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے آرٹیکل 184/3 کا دائرہ بڑھایا گیا، سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184/3 کا پہلا مقدمہ چوہدری منظور الہی کا آیا۔اپوزیشن لیڈر ظہور الہی کی گرفتاری پر سپریم کورٹ مین درخواست دائر ہوئی۔ اس کیس کے بینچ کے تمام ججز نے آرٹیکل 184/3کے اختیار پر محتاط رویہ اختیار کیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ منظور الہی کیس میں تمام ججز نے کہا کہ معاملہ عوامی مفاد کا ہے۔آپ فیصلہ کا پیراگرام 47 پڑھیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا انحصار فیصلہ کے پیراگراف 45 پر ہے۔منظور الہی کیس کے بعد آرٹیکل 184/3 کا اختیار آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ 1980 میں سپریم کورٹ رولز بنے۔ 1980 میں رولز کا پس منظر اور زمینی حالات کیا تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جانتے ہیں کہ آرٹیکل 184/3 کا اختیار میں وقت کیساتھ توسیع ہوئی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظر ثانی کا تعلق بھی آرٹیکل 184/3 سے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی کے دائرہ بڑھانے کے معاملہ پر دوسری سائیڈ بھی متفق ہے۔ اپیل اور نظر ثانی میں فرق ہے۔کیا نظر ثانی کا اپیل میں تبدیل کیا جا سکتا؟ دوسری سائیڈ کا موقف ہے یہ کام آئینی ترمیم سے ہوگا۔دوسری سائیڈ کا اختلاف قانون سازی کے طریقہ کار سے ہے۔ عدالت بھی نظر ثانی کے دائرہ میں توسیع کے نقطہ کو تسلیم کرتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آئینی کی اسکیم کو عمومی قانون سازی سے بدلا جا سکتا یے؟
دوران سماعت کمرہ عدالت میں چڑیوں کی چہچہانے کی آواز آئی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوے کہا کہ چڑیا شاید آپ کیلئے پیغام لائی ہیں، اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید ہے پیغام اچھا ہوگا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہ زمانہ بھی تھا جب کبوتروں کے زریعے پیغام جاتے تھے،
سپریم کورٹ ریو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ،آرٹیکل 184(3) سے متعلق ایک فیصلہ منظور الہی کیس میں آیا، اس کیس میں درخواست گزار تھے، انہیں گرفتار کر کے قبائلی علاقے لے جایا گیا،ملتا جلتا معاملہ ہائیکورٹس میں زیرالتوا ہونے پر چیف جسٹس نے 184(3) کی درخواست پر اختتار کے استعمال سے گریز کیا،
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام ججز نے کہا تھا یہ معاملہ عوامی مفاد کا ہے، آپ فیصلہ کا پیرا گراف 47 بھی پڑھیں،
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کی استدعا منظور کرلی
تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے
عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا
آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا
مقدمات کا حتمی ہونا، درستگی اور اپیل کا تصور اہم ہے