سپریم کورٹ،سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت ملتوی

حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے،چیف جسٹس
0
99
supreme court01

سپریم کورٹ ، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سماعت کی،وکیل الیکشن کمیشن سکندر مہمند نے کہا کہ کوشش کروں گا آدھے گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کر لوں،پی ٹی آئی کے پارٹی ٹکٹ پر بیرسٹر گوہر کے بطور چیئرمین دستخط ہیں،ٹکٹ جاری کرتے وقت تحریک انصاف کی کوئی قانونی تنظیم نہیں تھی،پارٹی تنظیم انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کرانے کی وجہ سے وجود نہیں رکھتی تھی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ 22 دسمبر کو جاری شدہ ہیں، انٹراپارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ 13 جنوری کا ہے تب تک بیرسٹر گوہر چیئرمین تھے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات 23 دسمبر کو کالعدم قرار دیدیے تھے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 26 دسمبر کو معطل ہوچکا تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ غلطی کہاں سے ہوئی اور کس نے کی ہے یہ بھی بتائیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کئی امیدواروں نے پارٹی وابستگی نہیں لکھی اسی وجہ سے امیدوار آزاد تصور ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پیچ پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس کی قانونی حیثیت نہیں،حامد رضاء نے 13 جنوری پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا،حامد رضاء کے کاغذات نامزدگی اور سرٹیفیکٹ میں تضاد ہے

حامد رضا ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگاتے رہے،وکیل الیکشن کمیشن
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تھے اور ہیں،صاحبزادہ حامد رضا خود کو پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتے تھے،صاحبزادہ حامد رضا نے خود کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا، حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں لکھا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے جس کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے، حامد رضا نے پی ٹی آئی کا پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے حامد رضا کے کاغذات منظور کر لئے تھے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے بیان حلفی میں ڈیکلریشن پی ٹی آئی نظریاتی کا جمع کرایا تھا، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ حامد رضا کو آزاد امیدوار قرار دینے سے پہلے کیا ان سے وضاحت مانگی گئی تھی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے درخواست دے کر شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا، ریکارڈ میں پارٹی ٹکٹ نظریاتی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی میں تضاد پر کوئی نوٹس کیا گیا تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ریٹرننگ افسر سکروٹنی میں صرف امیدوار کی اہلیت دیکھتا ہے انتخابی نشان کا معاملہ نہیں،حامد رضا خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار قرار نہیں دینا چاہتے تھے، حامد رضا ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگاتے رہے،چودہ جنوری سے سات فروری تک تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کروا سکتی تھی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انٹراپارٹی انتخابات ہوتے بھی تو کیا فرق پڑنا تھا؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان مل جاتا اور وہ انتخابات کیلئے اہل ہوجاتی،

آرٹیکل 218(3) کے تحت پی ٹی آئی کو رعایت دے سکتے تھے، وکیل الیکشن کمیشن
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس صورتحال میں تو انتخابی شیڈول ہی ڈسٹرب ہوجاتا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اتنی خاص رعایت کس قانون کے تحت ملنی تھی؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کا معاملہ کئی سال سے الیکشن کمیشن میں زیرالتواء تھا، الیکشن کمیشن 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی انتخابات تو ہوچکے تھے معاملہ ان کی قانونی حیثیت کا تھا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آرٹیکل 218(3) کے تحت پی ٹی آئی کو رعایت دے سکتے تھے،

گزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟ جسٹس عائشہ ملک
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے کسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں کی تھی، غلط تشریح کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا پورا موقف خراب ہوجاتا ہے،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس سوال کا جواب دے چکا ہوں، سنی اتحاد کونسل نے الیکشن لڑا نہ ان کا کوئی امیدوار کامیاب ہوا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ باپ پارٹی کو نشستیں دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا،باپ پارٹی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک معاملے پر دو مختلف موقف کیسے لے سکتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا باپ پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا؟ کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں نشست ہو تو مخصوص سیٹیں مل سکتی ہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ آئین و قانون کے مطابق آٹھ فروری کو پانچ عام انتخابات ہوئے تھے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر اسمبلی کیلئے الگ عام انتخابات ہوتے ہیں، الٰیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل مکمل کر لئے

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک وکیل نے ایک کیس میں کچھ موقف اپنایا شام کو کچھ اور، مختلف موقف کا سوال ہونے پر وکیل نے کہا میں اب زیادہ سمجھدار ہوگیا ہوں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے اپنے نوٹ میں کچھ معلومات مانگی تھیں،وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ کا نوٹ میں نہیں پڑھ سکا،

الیکشن کمیشن نے عدالت کو صرف ایک فارم دکھایا ہے دوسرا نہیں،بیرسٹر گوہر
عدالت نے بیرسٹر گوہر کو روسٹرم پر بلا لیا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ سے پوچھا تھا کہ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا یا نہیں، بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بطور پارٹی امیدوار اور آزاد امیدوار بھی کاغذات جمع کرائے تھے، الیکشن کمیشن نے عدالت کو صرف ایک فارم دکھایا ہے دوسرا نہیں،عدالتی فیصلہ رات گیارہ بجے آیا ہمیں آزاد امیدوار شام چار بجے ہی قرار دیدیا گیا تھا،ایک امیدوار ایک حلقہ کیلئے چار کاغذات نامزدگی جمع کروا سکتا ہے، پارٹی ٹکٹ کے کئی خواہشمند ہوتے ہیں جسے ٹکٹ ملے وہی امیدوار تصور ہوتا ہے، الیکشن کمیشن نے عدالت سے کاغذات نامزدگی چھپائے ہیں،

سپریم کورٹ، مخصوص نشستوں کا کیس، جے یو آئی نے الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا لئے
معاون وکیل نے کہا کہ فاروق نائیک عدالت نہیں پہنچ سکے، پیپلزپارٹی کے وکیل اور شہزاد شوکت نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لئے، وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ جے یو آئی ف الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا رہی ہے، اقلیتوں کی پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے مس پرنٹ ہوا تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی، اقلیتوں کے حوالے سے الگ سیکشن موجود ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درست کام کیا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کل تو مولانا فضل الرحمن پریس کانفرنس میں کچھ اور کہہ رہے تھے اور دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کررہے تھے۔ وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئینی ادارے کے ساتھ ہیں،مسلم لیگ ن کے بیرسٹر حارث عظمت نے تحریری دلائل جمع کرا دیے.جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ امیدواروں کو آزاد قرار دینا غلط تھا تو پارٹی شمولیت کا 3 دن کا وقت دوبارہ شروع ہوگا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سُپریم کورٹ کے فیصلے نے کسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں کی تھی، غلط تشریح کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا پورا موقف خراب ہوجاتا۔

دوران سماعت جسٹس منیب اختر اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک دوسرے کو جواب دیا،جسٹس منیب اختر الیکشن کمیشن کو ملبہ کسی اور جگہ گرانے کی بجائے پھر اس نقطہ پر لے آئے جس وجہ سے بلا چھینا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ذمہ داری لینے کا کہہ دیا، سپریم کورٹ کے فیصلہ سے بری الذمہ ہوگئے،جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو "نامناسب” کہا تو چیف جسٹس معاملہ عمران خان پر لے گئے

الیکشن کمیشن 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟چیف جسٹس
وکیل الیکشن کمیشن نے بار بار 13 جنوری بلے سے متعلق کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ پر کیوں ڈال رہا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن کرائے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے کہا ٹھیک نہیں ہوئے،پشاور ہائی کورٹ نے کہا ٹھیک ہوئے، لیکن سپریم کورٹ میں معاملہ آیا تو سپریم کورٹ نے کہا الیکشن کمیشن کا موقف درست ہے اور بلا چھین لیا،

سپریم کورٹ ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کتنا وقت لیں گے ؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے 45 منٹ درکار ہوں گے، سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا ۔

عدالت نے مولوی اقبال حیدر کو دلائل سے روک دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے الیکشن نہیں لڑا تو آپ ہمارے لئے کوئی نہیں ہیں،اپنا کیس چلانا ہو تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے،

مجبور نہ کریں ورنہ پچھلی باتیں کھولنے پر آئیں تو بہت کچھ کھل جائے گا، چیف جسٹس
پنجاب اور بلوچستان حکومت نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے،ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ عدالتی نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا، متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کروا چکا ہوں،الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کے پی کے میں انتخابات درست نہیں ہوئے؟ ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں، گزشتہ انتخابات میں کے پی کے میں باپ پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا،باپ پارٹی کے پاس کے پی میں کوئی جنرل نشست نہیں تھی، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی میں تین افراد نے شمولیت اختیار کی تھی، ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ آزاد کی شمولیت پر الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کو مخصوص نشست دی تھی،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی کی بلوچستان میں حکومت تھی، قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی بھی تھے، ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کیلئے باقاعدہ نیا شیڈیول جاری کیا تھا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے اور اب مختلف موقف اپنایا ہے، الیکشن کمیشن آج کہتا ہے گزشتہ انتخابات میں کیا گیا ان کا فیصلہ غلط تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کے پی حکومت نے اس وقت یہ فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ اگر چیلنج نہیں کیا تھا تو بات ختم،پی ٹی آئی کے2018 میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے، پی ٹی آئی کو 2018 میں انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس پر جائیں گے تو چیئرمین سینٹ کا انتخاب بھی کھل جائے گا،مجبور نہ کریں ورنہ پچھلی باتیں کھولنے پر آئیں تو بہت کچھ کھل جائے گا، ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ باپ پارٹی نے کے پی اسمبلی کیلئے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی تھی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی، ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ جو فارمولہ الیکشن کمیشن نے پہلے اپنایا تھا اب کیوں نہیں اپنایا جا رہا،ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے دلائل مکمل ہو گئے

اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں ہو گا،اٹارنی جنرل
‏سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو گئی، اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کر دیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئیں،مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں، خواتین کو پہلی مرتبہ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002 میں ملی، سال 1990 سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں،17ویں ترمیم میں خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں،اسمبلیوں کی نشستیں جنرل انتخابات اور پھر مخصوص نشستوں سے مکمل کی جاتی ہیں، اسمبلیوں میں نشستوں کو مکمل کرنا ضروری ہے،آئین کا مقصد خواتین، غیر مسلمانوں کو نمائندگی دینا ہے،اگر اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں ہو گا،متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے، مخصوص نشستوں کیلئے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا،

جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے،جسٹس شاہد وحید کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے، مخصوص نشستوں کیلئے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جو فارمولہ آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔ جسٹس عائشہ اے ملک نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 95 کچھ کہتا ہے اور 94 کچھ لیکن آپ کی کوشش ہے کہ ہم 95 سے ہو کر 94 کو پڑھیں یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں 2002 سے یہی فارمولا استعمال ہو رہا ہے ؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سال 2002 میں الیکشن ایکٹ 2017 نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولہ نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا،

آزاد امیدواروں کو پارٹی ارکان سے کم تر نہیں سمجھا جا سکتا،جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سارا تنازع شروع ہی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنے پر ہوا،اس نکتے پر بعد میں جواب دوں گا،اصل نکتہ یہ ہے کہ کوئی مخصوص نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے بعد پہلا انتخاب 2018 میں ہوا تھا،آپ 2002 کی مثال دے رہے ہیں جو بہت پرانی بات ہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا تعین ہوا لیکن انہیں دی نہیں گئیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے بغیر آزاد امیدوا مخصوص نشستیں نہیں مانگ سکتے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر سنی اتحاد والے ارکان آزاد ہیں تو ان کی مخصوص نشستوں کا تعین کیوں کیا گیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو پارٹی ارکان سے کم تر نہیں سمجھا جا سکتا،آزاد امیدوار مقررہ وقت میں کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے حساب سے انگریزی میں لکھی بات بہت آسان ہے،اتنے دن ہوگئے آرٹیکل 51 کی تشریح کرتے ہوئے ہم مفروضوں پر کیوں چل رہے ہیں، اپنی سوچ اور نظریہ آئین پر مسلط نہیں کیا جا سکتا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مشکلات آپ کے بنائے ہوئے رولز پیدا کر رہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاش میرا دماغ چیف جسٹس جیسا ہوتا تو پڑھتے ہی سمجھ جاتا، اتنی کتابیں اسی لئے پڑھ رہے ہیں کہ سمجھ آ جائے، کمزور ججز کو بھی ساتھ لیکر چلیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیصلہ ایسا لکھنا چاہیے کہ میٹرک کا طالبعلم بھی سمجھ جائے،آئین اور قانون ججز اور وکلاء نہیں عوام کیلئے ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں جس کا جو حق ہے اس کو ملنا چاہیے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر حق کی بات ہے تو اس کا مطلب ہے آپ آدھا فیصلہ کر چکے، حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزادامیدوار بنا دے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزاد امیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزاد امیدوار آیا؟

الیکشن 2018 میں الاٹ کی گئی نشستوں کی تقسیم کی تفصیلات طلب
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بنیادی سوال بڑی سیاسی جماعت کو غلط تشریح کرکے انتخابات سے باہر کرنا ہے، نشستوں کی تقسیم بعد کی چیز ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی الیکشن کمیشن سے مانگا کیا جا رہا ہے، عدالت نے الیکشن 2018 میں الاٹ کی گئی نشستوں کی تقسیم کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کر دی،عدالت نے آزاد امیدواروں کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت سے پہلے اور بعد نشستوں کی تقسیم کی تفصیلات بھی طلب کر لیں.

عدالت نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل 1:30 بجے تک سماعت کرینگے کیونکہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل دلائل مکمل کر لونگا، مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کل 1:30 بجے تک ملتوی کر دی گئی

نشان نہ ملنے پر کسی امیدوار کا کیسے کسی پارٹی سے تعلق ٹوٹ سکتا؟ چیف جسٹس

انتخابات بارے کیا کیا شکایات تھیں الیکشن کمیشن مکمل ریکارڈ دے، جسٹس اطہر من اللہ

سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل پر سماعت 24 جون تک ملتوی

سپریم کورٹ، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کیخلاف کیس کی سماعت ملتوی

مخصوص نشستیں، فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں نظر نہیں آ رہا، مبشر لقمان

واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے سے متعلق کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ واپس لینے کیلئے یہ اعتراف کرلینا چاہئیے کہ الیکشن والے دن بہت بڑی فاش غلطی ہوئی

بلیک میلنگ کی ملکہ حریم شاہ کا لندن میں نیا”دھندہ”فحاشی کا اڈہ،نازیبا ویڈیو

حریم شاہ کے خلاف کھرا سچ کی تحقیقات میں کس کا نام بار بار سامنے آیا؟ مبشر لقمان کو فیاض الحسن چوہان نے اپروچ کر کے کیا کہا؟

حریم شاہ..اب میرا ٹائم شروع،کروں گا سب سازشیوں کو بے نقاب، مبشر لقمان نے کیا دبنگ اعلان

میں آپکی بیویوں کے کرتوت بتاؤں گی، حریم شاہ کی دو سیاستدانوں کو وارننگ

Leave a reply