اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ،تہران،شیراز ،کرج میں دھماکے
![iran](https://baaghitv.com/wp-content/uploads/2024/10/iran-isra-905x553.png)
اسرائیل نے یکم اکتوبر کو ایرانی بیلسٹک میزائل حملوں کے جواب میں ایرانی دارالحکومت تہران، شیراز اور کرج پر فضائی حملے کیے ہیں۔ ایرانی سرکاری میڈیا نے تہران میں متعدد دھماکوں کی تصدیق کی ہے، جہاں تہران اور قریبی شہر کرج میں پانچ دھماکوں کی آوازیں سنائی گئیں۔ عرب میڈیا کے مطابق یہ دھماکے پاسداران انقلاب کے ہیڈکوارٹر کے قریب ہوئے۔ اسرائیلی حملوں کے بعد کئی مقامات پر آگ لگنے کی بھی اطلاعات ہیں، اور ایک عمارت میں آگ لگنے کی خبر ہے، حالانکہ تہران کے فائر بریگیڈ نے وضاحت کی ہے کہ اس عمارت کا وزارت دفاع سے کوئی تعلق نہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، ایک اہم سیکیورٹی عمارت میں دھماکے ہوئے ہیں اور دعویٰ کیا گیا کہ اس عمارت سے دس سے زائد افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے۔ کرج وہ شہر ہے جہاں ایران کے نیوکلیئر پاور پلانٹس واقع ہیں، لیکن یہ واضح نہیں کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کو نشانہ بنایا گیا یا نہیں۔اسرائیل نے حملے سے پہلے وائٹ ہاؤس کو آگاہ کر دیا تھا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس کے مطابق، اس فضائی حملے میں کئی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ایران اور خطے میں اس کی پراکسیز کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دمشق کے مختلف علاقوں اور عراق کے شہر تکریت میں بھی دھماکوں کی اطلاعات ملی ہیں، اور اس وقت دونوں ممالک کی فضاؤں میں کوئی طیارہ موجود نہیں تھا۔
ایرانی انٹیلی جنس حکام نے بتایا ہے کہ دھماکوں کی وجہ ممکنہ طور پر ایران کے فضائی دفاعی نظام کا فعال ہونا ہو سکتا ہے۔ ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کا کوئی دفتر نشانہ نہیں بنایا گیا۔عرب میڈیا کے مطابق، تہران ایئرپورٹ کے قریب بھی دھماکے ہوئے، اور ان دھماکوں کی اطلاعات پر ایرانی فضائی حدود سے پروازوں کا رخ موڑ دیا گیا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے اپنے دفاع کی مشق ہیں، اور صدر بائیڈن کو اس کارروائی سے پہلے آگاہ کیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے وضاحت کی کہ اس حملے کا مقصد اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کو مضبوط کرنا ہے، اور یہ یکم اکتوبر کو ایران کے بیلسٹک میزائل حملوں کا جواب ہے۔
یہ صورتحال خطے میں مزید کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے، اور عالمی برادری کی نظریں اس پر مرکوز ہیں کہ کس طرح یہ تنازع مزید بڑھ سکتا ہے۔