اسرائیل کی ایرانی جوہری نظام پر حملے کی تیاری
اسرائیل نے شام میں اپنے فضائی دفاعی نظام کو تباہ کرنے کے بعد ایران کے جوہری پروگرام کو ہدف بنانے کے لیے حملوں کی تیاری شروع کر دی ہے۔
اسرائیل کی فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کے کمزور ہونے اور شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملوں کے لیے اسرائیلی فضائیہ اپنی تیاریوں میں تیزی لا رہی ہے ،اسرائیلی اخبار کے مطابق، اسرائیلی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اسرائیل مزید اقدامات کرے گا۔ فوجی حکام نے کہا کہ اسرائیل ایران کے جوہری منصوبے کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا اور ایران کو ایک جوہری بم بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ اب ایران کے جوہری مقامات پر حملہ کرنے کا ایک سنہری موقع ہے، کیونکہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو مزید آگے بڑھا رہا ہے اور اسے روکنے کے لیے اسرائیل کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
اسرائیلی فضائیہ نے شام میں فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق، حالیہ ہفتوں میں اسرائیل نے شام میں مختلف مقامات پر حملے کیے ہیں، جن میں شام کے فضائی دفاعی نظام کو بری طرح نقصان پہنچایا گیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے ایران کے حامیوں، خاص طور پر لبنان کی حزب اللہ اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے ہیں۔
اسرائیل کا موقف یہ ہے کہ ایران ایک جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر ایران کو اس پروگرام میں کامیابی حاصل ہوئی تو اس سے پورے خطے کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو جائے گی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، ایران کی جوہری صلاحیت کو روکنا اسرائیل کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اسرائیل نے بارہا یہ کہا ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے میں ناکام رہی تو اسرائیل کو خود ہی اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گوٹریش نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے حملوں کو فوراً روک دے اور شام سے باہر نکل جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام میں فوجی کارروائیاں خطے کی صورتحال کو مزید پیچیدہ اور بے قابو بنا سکتی ہیں اور اس کے انسانی بحران کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔دوسری جانب، امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اسرائیل کے دفاعی اقدامات کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے ملک کی سلامتی کے لیے جو اقدامات درکار ہوں، وہ اٹھانے کا حق ہے، اور امریکہ اسرائیل کے اس حق کی حمایت کرتا ہے۔
اسرائیل کی ممکنہ حملے کی شدت کا انحصار ایران کے جوہری پروگرام کی نوعیت اور اسرائیل کی عسکری حکمت عملی پر ہوگا۔ اسرائیل نے پہلے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے ہیں، اور حالیہ دنوں میں ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری سائنسدانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اسرائیل کی فضائیہ کے مطابق، اس بار ایران کے جوہری تنصیبات پر براہ راست حملے کیے جا سکتے ہیں، جس سے خطے میں ایک نئی کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی حالیہ برسوں میں کئی بار بڑھ چکی ہے۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اس کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا عندیہ دیتا رہتا ہے۔ ایران بھی اسرائیل کے ان اقدامات کو اشتعال انگیز قرار دے چکا ہے اور بارہا اسرائیل کو دھمکی دے چکا ہے کہ وہ اس کی جوہری صلاحیت کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی فوجی کارروائی کا جواب دے گا۔
اگر اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، تو اس کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔ عالمی برادری میں اس حملے پر شدید ردعمل آ سکتا ہے، اور اس سے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود سیاسی اور فوجی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے اس صورتحال میں مداخلت کر سکتے ہیں تاکہ تنازعہ کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔
شام میں پھنسے 318 پاکستانی واپس پہنچ گئے،احسن اقبال نے کیا استقبال
پاکستان کوشام میں اسرائیلی جارحیت پرشدید تشویش ہے.ترجمان دفترخارجہ
اسرائیل کے شامی فوجی اہداف پر 48 گھنٹوں میں 480 حملے
اسرائیل کے شدید حملوں میں شام کی اہم دفاعی تنصیبات مکمل تباہ
آزاد شام کا جشن مہنگاپڑ گیا،جرمنی سے شامی پناہ گزینوں کو نکالنے کا مطالبہ