اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے انخلاء کے احکامات میں مسلسل توسیع کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں غزہ کے فلسطینیوں کے لیے زندگی مزید تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی حملوں کی شدت کے باعث غزہ کے اندر اب کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی ہے۔ مغربی میڈیا رپورٹس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے مکمل فوجی کنٹرول میں لینا چاہتا ہے تاکہ وہ پورے علاقے کو مسمار کر کے حماس کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکے۔اسرائیلی حکام کے مطابق، غزہ کے جنوبی حصے میں موجود رفح کو مستقل طور پر خالی کرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جو غزہ پٹی کے 20 فیصد علاقے پر مشتمل ہے۔ اسرائیل کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے نکال کر ساحلی علاقوں کی طرف دھکیلنا ہے تاکہ وہ مزید ہجرت کرنے پر مجبور ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی غزہ میں بھی اسی نوعیت کی کارروائیاں جاری ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کے بقیہ علاقوں میں زمین کو تباہ کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ ایک ماہ قبل اسرائیل نے غزہ کے لیے امداد کی فراہمی مکمل طور پر بند کر دی تھی، اور پچھلے ہفتے غزہ سٹی کے لاکھوں رہائشیوں کی صاف پانی کی واحد سپلائی لائن بھی کاٹ دی۔ اس صورتحال نے غزہ کے اندر زندگی کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔اسرائیل کا ایک اور منصوبہ یہ ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کو شام کے شمال میں بسایا جائے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، شام میں ترکیہ کی سرحد کے قریب فلسطینیوں کے لیے خیمہ بستیاں تیار کی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی فوج شام میں مزید پیش قدمی کر رہی ہے، اور میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی فوج سیاحوں اور شہریوں کو حال ہی میں قبضہ کیے گئے شامی علاقے کی سیر کرانے کا انتظام کر رہی ہے۔ یہ دورے گولان ہائٹس کے متنازعہ علاقے میں اتوار سے شروع ہو کر ایک ہفتے تک جاری رہیں گے۔
غزہ پٹی پر 19 ماہ سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں 51 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ 14 ہزار سے زائد فلسطینی ابھی تک لاپتا ہیں۔ اس صورتحال نے غزہ کے فلسطینیوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، اور عالمی برادری اسرائیل کی ان کارروائیوں پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
یہ تمام حالات غزہ کے فلسطینیوں کے لیے ایک بدترین انسانی بحران کی نشاندہی کرتے ہیں، جس میں اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسلسل نئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال کر دیگر علاقوں میں بسایا جا سکے۔ عالمی سطح پر اس صورتحال پر گہری تشویش پائی جاتی ہے، مگر عملی طور پر کسی بھی عالمی طاقت کی جانب سے اس بحران کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔